عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں
"اداس نسلیں" عبداللہ حسین کا ایک شہر آفاق ناول ہے اور یہ انکی اردو ادب میں نمایاں کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ناول سن 1964ء میں شائع ہوا اور شائع ہونے کے کچھ عرصے بعد ہی اسے "آدم جی لٹریری ایوارڈ" سے نوازا گیا۔انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ (The weary generations) کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس ناول کا زیادہ تر حصہ (British India ) پر مشتمل ہے۔ یہ ناول آزادی، مٹی سے عشق، عورت و مرد کی محبت اور اسی طرح کے کئی اور پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔
ناول کا مرکز تین کرداروں، نعیم، اسکی بیوی عذرہ اور نعیم کے بھائی علی کے گرد گھومتا ہے۔ اس ناول میں جہاں انسان کا معاشرے سے تعلق بیان کیا گیا ہے وہیں اسے زندگی گزارنے کے اصولوں کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ نعیم کا باپ نیاز بیگ ایک کسان کا بیٹا ہونے کی وجہ سے کاشت کاری کے شعبے سے خاص رغبت رکھتا تھا اور ہتھیار و بارود بنانے کا شوقین تھا اور ماہر بھی۔ اس زمانے میں انگریز حکومت کی مرضی کے خلاف اسلحے کا استعمال قانونی جرم سمجھا جاتا تھا۔ جب کئی بار ممانعت کے باوجود وہ باز نہ آیا تو اسے بارہ سال قید بامشقت کے تحت جیل بھیج دیا گیا۔ چونکہ نعیم اس وقت تین سال کا کمسن بچہ تھا، اسکا چچا ایاز بیگ اسے طعنئہ زماں سے بچانے کے لئے اپنے ساتھ کلکتہ لے گیا اور اسے اچھے انگریزی سکول میں پڑھایا۔
اپنے والد کی جیل سے رہائی پہ نعیم گاؤں(روشن پور) لوٹا اور وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ ایاز بیگ نے اسے واپس بلانے کے لئے کئی خط لکھے اور اسے لانے کے لئے ملازم خاص کو بھی بھیجا لیکن بے سود۔ گاؤں میں اسکے قیام کے دوران، پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوتا ہے اور انگریز حکومت گاؤں کے چند جوانوں کے ساتھ اسے محاز پر لے جاتی ہے۔ نعیم گاؤں کی زندگی اور اپنے باپ کی دو بیویوں کے لڑائی جھگڑے سے کافی زیادہ تنگ تھا۔ جنگ کے دوران نعیم اپنے ایک بہت اچھے ساتھی کو جان بوجھ کر گنوا دیتا ہے، جس کا افسوس اسے مرتے دم تک رہتا ہے۔ اس کے بعد ایک سال تک فرانس اور بلجیئم میں اس نے کئی مقابلے لڑے، کچھ اپنے نام کئے اور بہت سوں میں شکست بھی ملی۔ اسی سال رجمنٹ کے مشرقی افریقہ جانے کا حکم جاری ہوا اور وہ مارسیلز پہنچے، وہیں (مارسلیز میں قیام کے دوران) اسے اپنے گاؤں کا ایک نوجوان ملتا ہے جو اسے(جنگ میں مارے گئے نا حق لوگوں ) اپنے دل کے بوجھ کا بتاتا ہے۔ اور کچھ عرصے بعد اسکی موت کی خبر آتی ہے۔ جنگ کے اختتام تک وہ اپنے بائیں بازو سے محروم ہو جاتا ہے۔ بازو سے محرومی کے بعد انگریز حکومت اسکو ڈیوٹی پر ایک اسپتال میں، جہاں جنگ سے آئے زخمیوں کا علاج کیا جاتا تھا، مقرر کرتی ہے۔ وہیں ایک زخمی اسے لکڑی کا ہاتھ بنا کر دیتا ہے، جسے بعد میں یہ ہمیشہ لگائے رکھا تھا۔جنگ سے واپسی پر اپنے گاؤں روشن پور لوٹتا ہے اور اپنے باپ کا کاشت کاری میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ کلکتہ میں اپنی پڑھائی کے دوران اس کا چچا ایاز بیگ روشن پور کے آغا (نواب روشن علی خان) کے دہلی کے محل (روشن محل) میں ایک تقریب میں اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ وہاں اسے روشن آغا کی بیٹی عذرہ دل کو بھاتی ہے جس سے بعد میں وہ شادی بھی کرتا ہے۔ روشن آغا انھیں روشن پور میں ہی ایک محل نما گھر بنا کر دیتے ہیں جس میں وہ کچھ عرصہ ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ اسی دوران نعیم آزادی کی تحریکوں میں شامل ہوتا ہے اور کچھ عرصہ جیل میں رہتا ہے۔ واپسی پہ وہ اپنے باپ کے گھر جاتا ہے اور اپنے سوتیلے بھائی علی کو پہلی بار دیکھتا ہے۔ کچھ مدت بعد اسکا باپ دنیا سے کوچ کر جاتا ہے اور جب وہ کھیتوں میں کام کرتے مزدورں اور اپنے باپ کی دو بیویوں کو سکون کی زندگی بسر کرتا دیکھتا ہے تو واپس شہر جا کر آزادی کی مختلف تحریکوں میں مشغول ہو جاتا ہے۔ اسی دوران اسکی عذرہ سے لڑائی ہوتی ہے اور وہ روشن پور آ کر اپنے چھوٹے بھائی کو گائوں کے برے لڑکوں کی صحبت سے دور رکھنے کے لئے شہر لے جاتا ہے اور اسے ایک فیکٹری میں کام دلاتا ہے۔ وہیں دوسری طرف نعیم کو آزادی مانگنے کی قیمت سات سال جیل میں گزار کر چکانی پڑتی ہے۔
رہائی کے بعد وہ گاؤں واپس جاتا ہے۔ اس کے چہرے پہ زمانے کی گرم تھپیڑوں کے اثرات نمایاں نظر آتے تھے اور زندگی کی دوڑ میں وہ سست پڑ گیا تھا اور بیمار رہنے لگا تھا۔ وہاں سے عذرہ اسے اپنے ساتھ شہر لے جاتی ہے اور اسکا علاج کرواتی ہے۔ علیل رہنے کے باعث وہ زیادہ تر وقت ادب سے منسلک رہتا ہے اور اپنی خامیوں کو اپنے علم سے پورا کرنے کی کوشش کرتا یے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہتا ہے۔ تندرست ہونے کے بعد روشن آغا اسے ایک سرکاری ملازم کی نوکری دلاتے ہیں جسے وہ نہایت ایمانداری سے کرتا ہے۔ اسی دفتر میں اسکا ایک ساتھی (جو زندگی کی چند عطا کی گئی نعمتوں سے بھرپور لطف اندوز نظر آتا ہے) سے دوستی کی شروعات ہوتی ہے۔ علی ایک فیکٹری میں چند پیسوں کے عوض ملازمت کرتا ہے جس سے اسکا گھر خرچ بمشکل چلتا ہے۔ ہجرت کے وقت روشن آغا اور ان کا خاندان ہیلی کاپٹر کے ذریعے پاکستان آتا ہے جبکہ نعیم اپنے بھائی علی اور اسکی بیوی عائشہ کے ساتھ ایک قافلے میں شریک ہوتا ہے، جسے بعد میں ایک سکھ ٹولی لے جاتی ہے۔ لاہور اسٹیشن پہ اترتے وقت علی اپنی بیوی کو بھیڑ میں کھو دیتا ہے اور بعد میں بانو نامی ایک لڑکی سے شادی کرتا ہے جس کی ملاقات نعیم سے آزادی کی تحریک میں سرگرم چند لوگوں کی رہائش گاہ میں ہوتی ہے، جہاں وہ نعیم پہ دل ہار بیٹھتی ہے اور نعیم اسے اپنے ساتھ لے جانے کا وعدہ کر کے مکر جاتا ہے، جس کا بوجھ زندگی بھر اس کے دل پہ رہتا ہے۔ علی کی طرح اس کا بھی ذریعہ معاش ایک فیکٹری میں ملازمت تھی۔
اس ناول میں مصنف نے آزادی کے کچھ اہم واقعات کو بڑی خوبصورتی سے بتایا ہے، جن میں جلیانوالہ باغ سر فہرست ہے۔ مصنف نے انسان سے جڑے تقریبا ہر رشتے کے سارے پہلو پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اور ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے بہترین اصول بھی بتائے ہیں۔
یہ ناول بلاشبہ اردو ادب کا ایک شاندار ناول اور عبداللہ حسین کا ایک شاہکار ہے۔ اسکی ایک بات کی اس کو پڑھنے سے قاری کی طبیعت بوجھل ہو جاتی، آپ تھوڑا سا بھی پڑھ کر اندر سے بھر جاتے ہیں اور آپکو دوبارہ پڑھنے کے لئے خالی ہونا پڑتا ہے۔ بہت کم مصنفین میں ہنر ہوتا ہے کہ پڑھنے والا اسکی لکھی باتوں کو محسوس کرے، یہ ناول انہی میں سے ہے۔
اس کا عنوان اداس نسلیں کیوں ہے اسکا جواب اسی میں پنہاں ہے اور ہر قاری کی اپنی سوچنے کی صلاحیت پہ منحصر بھی ہے۔ ایک گلہ مجھے مصنف سے یہ ہے کہ اس کے عنوان کی مطابقت کافی زیادہ مبہم رکھی گئی ہے۔ ادب سے رغبت رکھنے والے ہر شخص کے لئے اسکا مطالعہ لازمی ہے۔
سیمارہ اعجاز
یو ای ٹی لاہور