ناول: دیمک زدہ محبت از صائمہ اکرم چوہدری تمہیداََ یہ عرض کرنا چاہوں گی کہ ناول سادہ اور آسان فہم میں تحریر کیا گیا ہے.. مصنفہ کی تحریروں کا آغاز عموماََ تجسس کے حامل کسی واقعے سے ہوتا ہے اور آپ پڑھتے چلے جاتے ہیں.. دیمک زدہ محبت" آپ کا ایک ایسا شاہکار ناول ہے جو کسی بھی مایوس اور زندگی سے بےزار انسان کے اندر امید کے جگنو جگا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے.. سب سے پہلے اگر بات کی جائے ناول کے بہترین کردار کبڑے پن کے مرض کا شکار سکینہ اللہ دتہ کی صابر و شاکر ماں "مائی جمیلہ" کی تو بے جا نہ ہوگا. مائی جمیلہ کے کردار کو صبر و شکر کے جن گداز جذبات کی روشنائی سے صفحہ قرطاس پر بکھیرا گیا, وہ ہرگز نظر انداز کردینے کے قابل نہ ہے.. یہ سچ ہے کہ خود پرستی اور نفسا نفسی کے اس دور میں مائی جمیلہ جیسے کردار محض قصّوں کی زینت بن کر رہ گئے ہیں, مگر کوئی دل والا اگر کردار کی گہرائی میں جائے تو یقیناََ مایوس نہ ہوگا کہ مائی جمیلہ کے پُر امید اور پُر یقین جملے زندگی کے اس سفر میں مثبت اور متحرک مقصد پیدا کر دینے کی صلاحیت کے حامل ہیں.. اُس کے بعد مائی جمیلہ کا شوہر "اللہ دتہ کمہار" کہ جس کے صبر پر خود صبر بھی حیران ہو اور شکر پر خود شکر بھی رشک کرے. جو کہتا تھا کہ اللہ نے اولاد جیسی بھی دی, والدین کے آنگن کو سونا نہ رکھا بلکہ اِس میں اپنی رحمت سے پھول کھلایا.. پھول مرجھا جاتے ہیں, بلکہ شاید پھول مرجھانے کے لیے ہی ہوتے ہیں, مگر اُن کی دلفریب مہک مرجھا جانے کے بعد بھی باقی رہتی ہے. اللہ دتہ کمہار اور مائی جمیلہ کے آنگن میں سترہ برس کی دعاؤں اور مناجاتوں کے بعد کھلنے والا پھول مرجھا تو گیا, مگر اُن کی زندگیوں میں عجب چاشنی اور اپنی مہک چھوڑ گیا.. "سکینہ اللہ دتہ", جس کی سمندر سی زندگی میں آنے والے بھنور نے اُسے ایک دم بےحد مایوس اور خالی ہاتھ کردیا. اگرچہ اُس نے اِس بھنور سے نکلنے کے لیے سر توڑ کوشش کی مگر اُس کی محبت کا بھنور سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے گیا. سکینہ اللہ دتہ کی سانسیں بھی.. کبھی کبھار یہ خیال آتا ہے کہ کوئی لوگ زندگی میں کتنے ہی کٹھن وقت سے گزریں, کبھی ہار نہیں مانتے. ساری دنیا کی منفی قوتیں اُنھیں ناکام کرنا چاہتی ہوں مگر وہ کامرانیوں سے سرفراز اس لیے ہوتے ہیں کہ اُنھیں چاہنے والے اُن کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتے, بلکہ ہمت بندھاتے ہیں.. "کپتان موحد عبدالرحیم", جس کے حب الوطنی کے جذبے نے سیاہ شب کے پجاریوں کو مات دے دی, مگر بےحسی کا لبادہ اوڑھے کسی اپنے کے رنگ بدلنے پر زندگی بہت تلخ ہوگئی.. بے انتہا مقبولیت حاصل کرنے والے ناول کی معروف مصنفہ "ثنائلہ زبیر" جسے اپنے ناول کے معذور فرضی کردار "سکندر شاہ" سے محبت ہوگئی تھی, اگر سکندر شاہ کی تلاش میں موحد عبدالرحیم تک نہ پہنچتی تو وہ زندگی کے نخلستان کی سختی اور تپش سے دلبرداشتہ ہو کر بالکل مایوس ہو جاتا.. "عائشہ عبدالرحیم", ایک بہترین مصورہ, جو نہ صرف اپنی تصویروں بلکہ لوگوں کی زندگیوں میں بھی رنگ بھرنا جانتی تھی. اپنے خوبصورت اور سادہ دل کی بدولت اُس نے اُن لوگوں کو بھی نوازا, جو ایک عرصے تک اچھائی کا لبادہ اوڑھے اُس کے دل سے کھیلتے رہے. سادہ دلی کی بنا پر دھوکے بھی کھائے, زخم بھی سہے مگر اطمینانِ قلب کی دولت سے مالا مال رہی.. اُس کے بعد اگر بات کی جائے ایک نہایت اہم کردار "ماہم منصور" کی, تو میں یہاں ایک سفاک نقاد ہونا چاہوں گی کہ جس خوبصورتی سے اِس کردار کو تحریر کرنا چاہیے تھا, وہ پختگی اور مضبوطی اِس کردار میں ناپید تھی. کردار نہایت اہم تھا,مگر پختگی سے لکھا نہیں گیا. اِس بات نے بہت مایوس کیا.. دوسروں کی نفسیات سمجھنے اور اُن میں بہتری لانے کا دعویٰ کرنے والی ماہم منصور کبھی اپنی نفسیات پر غور نہ کر سکی اور لوگوں کی بہاروں سی زندگی میں خزاں سی تپش گھولتی رہی. اپنے مریضِ محبت "رامس علی" کو جس موڑ اور جس بنا پہ اُس نے چھوڑا وہ رامس علی کے لیے بہت تباہ کن ہوتا جو اگر اُسے تھام کر سہارا دینے والے ہاتھ نہ مل جاتے.. ماہم جیسے لوگ بڑے بےرحم ہوا کرتے ہیں. اپنے احساسِ برتری کے زعم میں مبتلا اور ہر شے میں کاملیت تلاش کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ کائنات کی ہر شے عیب دار ہے. یہ عیب چیزوں کو بدنما دکھانے کے واسطے نہیں ہوتے, بلکہ یہ تو غرور کے نشے میں مبتلا ہونے سے بچاتے ہیں. تکبر اور بڑائی جیسی ذلت سے پاک رکھتے ہیں. بے عیب تو صرف خدا کی ذات ہے اور بڑائی صرف اُسی کی شان ہے.. مجھے نہیں معلوم کہ ماہم جیسے لوگوں کا کیا انجام ہوتا ہے, بس اتنا پتا ہے کہ اپنی خود پسندی کے زعم میں گرفتار, لوگوں کے دلوں کو مسمار کرنے والوں کے پاس قلبِ مطمئنہ نہیں ہوتا.. اُن کی زندگیاں دلوں کو سنوارنے کی بجائے خوبرو چہروں کو نکھارنے میں گزر جایا کرتی ہیں.. ثانوی کرداروں پہ اگر بات کی جائے تو "اعجاز عرف جاجی" کی محبت نے بڑا حیران کیا. مگر یہ حیرانی بہت خوش کن تھی. محبت کی آنکھ بہت خوب صورت ہوتی ہے. ہر شے کو خوشنمائی کی نظر سے دیکھتی ہے. پھر کچھ بھی بھدا نہیں لگتا. ڈاکٹر زویا کے کردار سے پس ثابت ہوا کہ محبت کی ضمانت خوبصورت چہرے نہیں, خوبصورت دل ہوا کرتے ہیں. اور "نابیہ" جیسے رفیقوں کی صحبت سے زندگی کی تلخیاں بے جان محسوس ہونے لگتی ہیں.. ناول کی تحریر میں چند جھول بھی تھے جس سے کرداروں کی زندگیوں میں گزرتے وقت کا تعین کرنا الجھا دیتا تھا, مگر کہانی کے خوبصورت نظریے اور انداز نے بڑے وقار سے اُن پر پردہ ڈالا.. ناول کے ایک اور اہم اور سب سے متاثر کن(راقم کی رائے میں) کردار کا ذکر کیا جائے کہ جس کے نام سے کہانی کا انجام ہوا. جی ہاں! بات ہو رہی ہے معروف و خوبرو سپائنل سرجن ڈاکٹر خاور علی کی, جس کا عشق اُس کا پیشہ تھا. درجنوں ناکام مسیحاؤں میں سکینہ اللہ دتہ کے معیارِ مسیحائی پر پورا اُترنے والا. ظاہری حسن کو سراب سمجھ کر باطن میں اُتر جانے والا. کبڑے پن کا شکار سکینہ اللہ دتہ اور مصورہ عائشہ عبدالرحیم کے دلوں کا حقیقی مسیحا. جس نے سکینہ اللہ دتہ کے خدمتِ خلق کے خواب کو اُس کے گزر جانے کے بعد اپنی محبت کے لہو سے سینچا.. جس کی محبت نے عائشہ عبدالرحیم کی سانسوں کو مسیحائی عطا کی, جس کی محبت نے سکینہ اللہ دتہ سے اُس کی سانسیں چھین لیں. مائی جمیلہ بالکل ٹھیک کہتی تھی "محبت اگر رب سے ہو تو سکون دیتی ہے اور اگر رب کے بندوں سے ہو تو نرا خوار کرتی ہے.." سکینہ اللہ دتہ بھی ڈاکٹر خاور کی محبت میں نرا خوار ہوئی. اور آخر میں جس شے نے اُسے مار دیا, وہ کبڑے پن کا مرض نہ تھا, وہ مرضِ محبت تھا. ہوتے ہیں کچھ با سعادت اور خوش بخت لوگ جو مرضِ محبت میں مبتلا ہوتے ہیں اور اِسی میں مبتلا مر جاتے ہیں یا مار دیے جاتے ہیں.. وہی سکینہ اللہ دتہ جس کی دل سوز آواز نے پہروں ڈاکٹر خاور کو مبہوت اور مسحور کیے رکھا. خوش نصیب تھی عائشہ عبدالرحیم جس نے محبوب کا ساتھ پا لیا. اور سکینہ اللہ دتہ تو وہ چراغ تھی جو کتنی ہی تند و تیز آندھیوں میں ڈاکٹر خاور علی کے دل میں جلتا رہا اور انجام پڑھ کر مجھے بھی یقین آگیا کہ محبتوں کو بھی دیمک لگ جایا کرتی ہے. جیسے ڈاکٹر خاور علی کی محبت دیمک زدہ ہوگئی تھی.. آخر میں یہ عرض کرنا ہے کہ زندگی کے سفر میں ہر کسی کو نشیب و فراز سے گزرنا پڑتا ہے. جواں مردی سے اُن کا مقابلہ کرنا اور ہار مان لینے کی بجائے نئی فتح تلاش کرنا زندہ دلوں کی نشانی ہے. خدا بھی اُنہی کی راہیں ہموار کرتا ہے جو پیش قدمی کرنے کا ہنر اور حوصلہ رکھتے ہوں. مگر یاد رہے, اپنوں کا ساتھ کبھی نہ چھوڑیں, کیونکہ جن چیزوں سے دھیان ہٹا لیا جائے, اُنھیں دیمک لگ جاتی ہے اور دیمک زدہ چیزیں ڈھے جاتی ہیں..... تمام شد