ری ویو ٹائم ان ناول ورلڈ

2020-05-16 17:38:20 Written by توصیف بریلوی

الکیمسٹ

 

توصیف بریلوی

ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ

ملک-ہندوستان

 

ہر ناول کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہوتی ہے مثلاً کوئی رومانی ہے توکوئی المیہ،کسی میں زمانے کی بے ثباتی کی عکاسی ملتی ہے تو کسی میں غربت و افلاس کو مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔ٹھیک اسی طرح الکیمسٹ ایسا ناول ہے جو نہ صرف ناول ہے بلکہ اپنے آپ میں فلسفہ بھی سمیٹے ہوئے ہے۔فلسفہ بھی کیسا، وہ جو محنت اور سعیٔ مسلسل کی طرف انسان کو راغب کرے ۔مقصد کے حصول میں سر گرداں رہنے اور اسے حاصل کرنے میں پیش آنے والی بہت سی پریشانیوں کو ناول الکیمسٹ میں ہنر مندی سے پیش کیا گیا ہے۔حالاں کہ اس ناول سے Inspire تو کوئی بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ بلا شبہ یہ Inspirational ناول ہے لیکن ناول کو پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ بالخصوص ہمارے معاشرے کے ان نوجوانوں کے لیے تخلیق کیا گیاہے جو راہ راست سے بھٹک گئے ہیں۔ 

ناول الکیمسٹ بے شک زندگی کو متاثر کرنے والی تھیوری کو فلسفیانہ انداز میں پیش کرتا ہے لیکن یہ کتاب ریلوے اسٹیشن کے بک اسٹال پر بکنے والی تمام تر کتابوں سے مختلف ہے جو تجارت میں کامیابی، محبت میں کامیابی اور پڑھائی میں کامیابی جیسے اسباق سے بھری ہوتی ہیں۔ الکیمسٹ میں باقاعدہ ناول کا مربوط پلاٹ، واحد غائب راوی کا بیانیہ، مختصر لیکن مؤثر مکالمے، بلا کی منظر نگاری ،موضوع مفید بلکہ رفاہ عامہ کی نذر اور تھیم انوکھی ہے۔ان نکات پر تفصیلی گفتگو سے اجتناب کیا جاتا ہے کیوں کہ طوالت کا خوف دامن گیر ہے اور پھر ناول کے اصل موقف پر یا پھر دیے گئے موضوع کے مطابق گفتگو نہیں ہو سکے گی۔

ناول کا مرکزی کردار جو ایک نوجوان لڑکا ہے،کے ذریعے سے زندگی کے بہت سے راز عیاں ہوتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ سعیٔ مسلسل کا نمائندہ نظر آتا ہے ۔وہ کسی بھی پریشانی کے وقت میں صحیح فیصلہ لینے کی قوت رکھتا ہے اور اپنے مقصد کی خاطر وہ پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھتا۔وہ ایک ایسے غریب خاندان کا فرزند تھا جہاں دو وقت کا کھانا بھی مشکل سے میسر تھا۔شاید یہی بھوک اور غریبی اس کے سفر کا سبب بنی ۔اور ویسے بھی سفر میں برکت ہے ۔

ابتدا میں جب وہ بھیڑوں کے ساتھ ایک ٹوٹے ہوئے گرجا گھر میں رہتا ہے جہاں انجیر کا بڑا درخت تھا۔اس کی کامیابی کا منبع تو وہیں تھا لیکن ظاہر ہے وقت سے پہلے اسے کیسے میسر آ جاتا ۔وہ جو خواب دیکھتا ہے، جس میں خزانے کی تعبیر تھی، اس کی تکمیل میں دل و جان سے ڈٹ جاتا ہے۔وہ نہ تو کبھی دل برداشتہ ہوتا ہے، نہ تو گھبراتا ہے اور نہ ہی ہار مانتا ہے۔ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام نے کہا تھا کہ ’’خواب وہ نہیں جو آپ بند آنکھوں سے دیکھتے ہیں بلکہ خواب وہ ہے جو آپ کو سونے ہی نہ دے۔‘‘اس قول کی روشنی میں ہم اس بات کو واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کے لیے عبرت کا مقام ہے انھیں سیکھنے کی ضرورت ہے کہ قسمت ہمارا ساتھ تب ہی دیگی جب ہم خود محنت کے راستے سے گزر کر اپنا مقام حاصل کر نے کی کوشش کریں گے۔ ڈاکٹر اقبال صاحب کا شعر اس موقعے پر کیا خوب معنی پیدا کرتا ہے:

 

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

 

ناول کا نوجوان کردار جو خزانے کے لیے طویل مدت تک سر گرداں رہتا ہے اور اس دوران وہ وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی ہنر اور زبانیں سیکھتا ہے اور مختلف علاقوں سے گزر کر طرح طرح کے لوگوں سے ملتا ہے۔ الکیمسٹ کا یہ کانسیپٹ قابل قدر اور قابل تعریف ہے۔اصل مقصد یہاں سفر کا ہے یعنی مشقت ہی ایسی شئے ہے جو ہمیں سماج میں وقار حاصل کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔

محبت اور مقصد یہ دونوں لفظ ایک ہی معنی میں استعمال ہو سکتے ہیں اور الگ الگ بھی۔ ایک ہی معنی سے مراد یہ ہے کہ کچھ لوگ محبت کو ہی مقصد سمجھ بیٹھتے ہیں اور کچھ محبت اور مقصد دونوں میں فرق کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ پاؤلو کوئیلیو کی خوبی یہ ہے کہ اس نے ناول کے نوجوان کردار کو محبت سے متاثر ضرور کیا لیکن جلد ہی اسے مقصد کا احساس بھی شدت سے کرا دیا۔ناول کے شروع میں ہی وہ نوجوان ایک تاجر کے یہاں جب بھیڑ کے بال بیچنے جاتا ہے تو اس کی ملاقات تاجر کی بیٹی سے ہوتی ہے۔وہ اسے چاہنے لگتا ہے اور اگلی سال اس سے ملنے کا خواب لے کر واپس چلا جاتا ہے حالاں کہ پھر پلٹ کر وہاں جانا اس کے مقدر میں نہیں ہوتا ہے۔ صحرا کے ایک قبیلے کی لڑکی کو جب چاہتا ہے تو اس سے ملاقات بھی ہوتی ہے اور اظہار محبت بھی لیکن شریک حیات اسے بھی نہیں بنا پاتا ہے کیوں کہ صحرا میں ہی اسے اپنے خزانے کا پتا معلوم ہو جاتا ہے اور وہ بے ساختہ کوچ کر دیتا ہے۔سبق یہ ہے کہ بعض اوقات زندگی میں محبت سے بھی بڑے مرحلے طے کرنے ہوتے ہیں کبھی اپنے لیے تو کبھی اپنے کنبے کی خاطر۔

ناول الکیمسٹ کا نوجوان کردار’’ ارنیسٹ ہیمنگ وے‘‘ کے ناول ’’بوڑھا اور سمندر‘‘کے اہم کردار بوڑھے سے خاصی مماثلت رکھتا ہے۔ جس طرح وہ بوڑھا 78 دن تک ایک بھی مچھلی کا شکار نہیں کر پاتا ہے لیکن جب اسے مچھلی ہاتھ لگتی ہے تو وہ بہت بڑی ہوتی ہے ۔اوزاروں کی کمی اور ضعف کے باوجود وہ بوڑھا شکار کی ہوئی مچھلی کو بچانے کے لیے شارک مچھلیوں سے تن تنہا لڑتا ہوا کنارے پر آ جاتا ہے لیکن جب وہ کنارے پر آتا ہے تو مچھلی کی ہڈیوں کے علاوہ کچھ نہیں بچتا ہے لوگ اس بڑی ہڈی کو دیکھ کر بوڑھے کا استقبال کرتے ہیں اور اس کی قابلیت کا لوہا مانتے ہیں نیز اس بوڑھے کو منحوس کہنا بند کر دیتے ہیں۔یہاں مطلب اس بات سے نہیں ہے کہ بوڑھے نے کیا حاصل کیا اور نہ ہی اس بات سے کہ الکیمسٹ کے نوجوان کردار نے کیا حاصل کیا۔اصل بات یہ ہے کہ ان دونوں کی محنت اور لگن میں کوئی ملاوٹ اور کھوٹ نہیں تھی۔ ان دونوں ہی کرداروں کا عزم ِمصمم دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔جسے سیکھنا اور سمجھنا وقت کی ضرورت ہے۔

ناول الکیمسٹ میں بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ تشبیہات و استعارات اور کوڈ موجود ہیں جن کے ذریعے بھی بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً بھیڑوں اور ان دو پتھروں کے ذریعے۔بھیڑوں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ انھیں ہانکنے والا ایک شخص ہونا چاہئے پھر چاہے جہاں کہیں بھی ہانک کر لے جائے۔ وہ کبھی بھی مزاحمت نہیں کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے چاہے بھیڑوں کو حلال کرنا بھی شروع کر دیا جائے تب بھی انہیں پتا نہیں چلتا اور وہ سوچنے سے قاصر ہیں۔ ناول میں بھیڑوں سے مراد یہاں وہ قوم ہو سکتی ہے جو ظلم کے خلاف ابتدا میں مزاحمت نہیں کرتی ہے اور بعد میں اپنے دشمن کے خلاف صف آرا ہونے کا حوصلہ کھو بیٹھتی ہے۔ 

بادشاہ کے ذریعے دیے گئے وہ پتھر صحیح اور غلط کی علامت کے طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ہر انسان کو اپنے مقصد کے حصول میں اس قدر محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ صحیح اور غلط کا تعین کر سکے۔اس میں اتنی لیاقت ہونی چاہئے۔تب جا کر کہیں عظیم مقاصد حل ہوا کرتے ہیں۔

اخیر میں راقم صرف اتنی بات عرض کر دینا چاہتا ہے کہ ناول الکیمسٹ کا نو جوان کردار کہ جس کے ارد گرد یہ کہانی گھوم رہی ہے وہ کیمیا گری کا ہنر سیکھنے کی بھی کوشش کرتا ہے لیکن اسے خزانہ وہیں ملتا ہے جہاں اس کی قسمت کو گوارہ تھا۔ اور قسمت کا معاملہ پھر اس کے نصیب سے جڑا ہوا تھا اور نصیب کو سچ ثابت کرنے کے لیے اس نے کڑی محنت کو اپنا شیوہ ٹھہرایا۔ محنت کرنے کی نوبت تب آئی جب اس نے خواب دیکھا اور خواب اس نے تب دیکھا کہ جب اس نے اپنی امنگ کو پورا کرنے کے لیے گھر سے رخصتی لی اور ظاہر ہے گھر سے رخصتی کی وجہ وہاں کا افسردہ ماحول اور غریبی کے ایام تھے۔مختصر یہ کہ بے شک امنگ کو پورا کیا جائے، خواب دیکھے جائیں، اسفار کیے جائیں لیکن اتنا اندازہ یہ بھی ہونا چاہئے کہ کہیں ہم غلط خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں اور کہیں غلط راہ پر تو نہیں نکل گئے ہیں۔ ناول کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ایک نوجوان کے گرد کہانی کو بُنا گیا ہے کیوں کہ محنت کے فلسفے پر خشک تحریر کو دلچسپی سے پڑھنا مشکل ہو سکتا تھا۔ یہاں پر مصنف کی ذہانت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ 

 

نوٹ:

۱-چوں کہ یہ کوئی باقاعدہ مضمون نہیں بلکہ تعریفی اور تنقیدی آزادانہ نوٹ ہے اس لیے اس میں اقتباسات نہیں دیے گئے ہیں۔اقتباسات نہ دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طوالت سے بچا جا سکے اور بات کو ٹو دی پوائنٹ کہا جائے۔

۲-میں اپنی اس خام تحریرکو انعام کے لائق تو نہیں سمجھتا ہوں لیکن پھر بھی ایک گزارش یہ ہے کہ اگر میری یہ تحریر کسی انعام کی حقدار ٹھہرتی ہے تو بلا شبہ اس رقم کو اپنے آس پڑوس میں کسی غریب کو دے دیں لاک ڈاؤن میں اس کے کام آجائے گی البتہ سرٹیفکیٹ کے لیے آپ بس اتنی زحمت کریں کہ اسے Scan کر کے ہمیں میل کر دیں ۔اصل سرٹیفکیٹ ہم تب وصول کر لیں گے جب زندگی کے کسی حصے میں وہاں پہنچیں گے۔شکریہ!