ری ویو ٹائم ان ناول ورلڈ

2020-05-20 16:23:16 Written by Hisaar Ali

عہدالست "میرے لئے" کیا ہے؟

 

"عہدالست" ایک ونڈر لینڈ ہے جسکی سرزمین پر بکھرے آئینے "یونیورسل ٹروتھ" آشکار کرتے ہیں۔" 

ادب کی ایک خاصیت ہے۔ یہ آپ پر مسلط نہیں ہوتا___یہ ہر عمر , طبقے, سوچ و فکر کے مطابق مارجن دیتا ہے کہ اسے آپ جس نہج پر سمجھیں وہی صحیح ہے۔ 

فیض پائیں۔۔۔۔معمولی گردانیں۔۔۔اکتا کر آگے بڑھ جائیں۔ 

سب صحیح۔۔۔۔!!

چار سال قبل میں 9Th اسٹینڈرڈ میں تھا جب یہ کتاب میرے ہاتھ میں آئی۔ میں نے اسے اپنی "سمجھ" کے مطابق پڑھا اور سجا کر رکھ دیا۔

آج چار سال بعد اس ونڈر لینڈ سے نکلتے ہوئے میں نے ان لازوال کرداروں کو دو آنسوؤں کے ساتھ الوداع کہا ہے۔ کیونکہ آج اس (کتاب) نے مجھ پر یونیورسل ٹروتھ انڈیل دیے ہیں۔

اس نے انسان "ہونا" دکھایا ہے۔ 

ہاں بلاشبہ یہ کتاب سامنے سے آکر اعصاب مفلوج کردینے جتنی قوتِ جرات رکھتی ہے۔۔۔۔ !

 

"عہدالست" 

تنزیلہ ریاض اعلی پائے کی مصنفہ ہیں۔ ان کے ہاں موضوعات کی کوئی کھوٹ(کمی) نہیں, قلم گویا جادو کی چھڑی_____

لیکن عہدالست وہ شاہکار ہے جو طویل مدت بعد انہوں نے تراشا اور شاہکار مدتوں بعد ہی تو وجود میں آتے ہیں, پھر صدیوں تک اپنا اثر برقرار رکھتے ہیں۔

عہدالست میں چند کرداروں کو لے کر معاشرتی رویوں, مذہبی اور اخلاقی قدروں اور وطن کی اہمیت کو اس طرح کہ اجاگر کیا گیا ہے کہ متعدد بار کہیں لہو گرما جاتا ہے تو کہیں دھڑکن سُن پڑتی ہے۔

 

ان کرداروں کے ذریعے مصنفہ نے غیر روایتی انداز میں ایسے مسائل اٹھائے ہیں جو قدم قدم ہمارے دامن گیر ہیں۔ آنکھوں کے سامنے ہیں پھر بھی اوجھل ہیں۔

 

یہ "بل گرانٹ" کی کہانی ہے۔۔۔۔۔میرا اور ناول کا چہیتا کریکٹر۔۔۔۔ !

بل گرانٹ ایسا شخص جسکی زندگی میں رشتوں کی بے برکتی رہی۔ جس نے زمانے کی سرد و گرم جھیلی, اور رشتوں و دنیا کے دوغلے رویوں کی بھٹی میں جل کر اسکی زندگی کندن ہوگئی۔

دربدر کی خاک چھانتے اسے دین اسلام کا مضبوط ستون نصیب ہوا اور پھر اسکے قول و فعل نے باور کرادیا کہ مسلمان ہونا دراصل کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔

اس کے حصے میں ہدایت کی روشنی آتی ہے تو یہ ہمیں اپنی گریبانوں میں جھانکنے پر مجبور کرتا ہے کہ دائرہ اسلام میں ہم کس طرز پر زندگی بسر کررہے ہیں؟ 

بل گرانٹ یعنی احمد معروف۔۔۔۔مشہور ترین قلم کار , جسکی نوک قلم سے پُرتاثیر الفاظ کا جھرنا رواں ہوجاتا ہے۔ 

 

ناول کے اس دلچسپ ٹریک میں محبت سے اکملیت, پانی سے عاجزی, مٹی سے آسودگی, واحدانیت سے بزرگی, جنون سے بربادی, دنیا کی ناپائیداری, اور ہوا , رقص جیسی مثالوں سے فہم و ادراک کے وہ اچھوتے سبق سکھائے گئے ہیں کہ جسے عقل مانتی ہے۔ جس نے مجھ دنگ کردیا اور میری رات بے خوابی کی نظر ہوگئی۔ 

اسلوب ایسا سادہ اور پُر اثر کہ یہ سب آپ پر زبردستی مسلط ہونے کی بجائے ذہن خود سب تسلیم کرنے مجبور ہوجاتا ہے۔ 

 

تنزیلہ ریاض نے اس میں بہت سے سوالات اٹھائے اور پھر قارئین کے ذہنوں کو پراگندہ چھوڑنے کی بجائے نہایت عمدگی سے جواب بھی دیے۔ 

مثلاََ میرا ایک پسندیدہ سین کہ نان ویج کھانے والے غدار ہوتے ہیں؟۔۔۔۔آپ بھی سنیئے اور سر دھنیئے۔ 

 

بل نے ٹیا (بل کی محبوبہ) کے کہنے پر کتابیں ڈسٹ بن میں پھینک دیں۔ ٹیا نے قہقہ لگایا۔ 

 

"میرے ڈیڈی,کزنز,بھائی انکلز, سب کے سب ہیجڑے ہیں۔ یہ ہمیشہ تالیاں بجانے والے بنے رہنا چاہتے ہیں____انہیں چڑ ہوتی ہے کہ اگر کوئی ان کےلئے تالیاں بجائے۔۔۔۔" (ٹیا کی ادھوری بات) 

 

"تمہیں رقص کرنا بہت پسند ہے نا ؟" (بل کا سوال)

 

"پسند___بہت چھوٹا لفظ ہے دوست۔۔۔۔یہ میرا شوق ہے میرا جنون ہے میری لگن۔۔۔۔"

 

"ڈیڈی مجھے پبلک پلیس پر رقص کرنے کی اجازت نہیں دیتے, بہرحال مجھے پروا نہیں میں کسی ایکس, وائی, زیڈ کے کہنے پر اپنے شوق سے اپنے جنوں سے منہ نہیں موڑ سکتی 

میں اپنی لگن سے اپنے آپ سے غداری نہیں کرسکتی۔۔۔۔میں غدار نہیں ہوں۔۔۔۔میں "نان ویج" نہیں کھاتی۔۔۔۔"

 

"میں نان ویج کھاتا ہوں۔۔۔۔مگر غدار نہیں ہوں۔" میرا لہجہ سپاٹ تھا۔ دل لرزنے لگا تھا۔

 

"تم تو رہنے دو دوست! تمہیں کتاب سے محبت ہے نا۔ ایک لڑکی کے کہنے پر اپنے شوق اپنی لگن کو کچرے میں پھینک دیا۔ مجھے دیکھو میں نے ممی ڈیڈی کو چھوڑ دیا مگر لگن سے منہ نہیں موڑا۔۔۔۔ میں نے کہا نا میں غدار نہیں کیونکہ میں نان ویج نہیں کھاتی" 

 

اس سوال کو مصنفہ نے گرینڈپا کے ذریعے انتہائی خوبصورتی سے سلجھایا۔ پڑھیئے 

 

"میرے بچے وفاداری کوئی سکھائے جانے والی چیز نہیں۔ ہم انسان پیدائشی طور پر اپنے اندر لاتعداد خوبیاں لے کر آتے ہیں وفاداری ان میں سے ایک ہے۔ 

گھوڑا وفادار ہے کیونکہ بنانے والے نے یہ عنصر اسکی فطرت میں رکھ دیا ہے جبکہ شیر کی فطرت میں یہ نہیں ہے۔یہ جانور ہم سے وفادار نہیں بلکہ اپنی فطرت سے وفادار ہیں۔ اس عنصر سے وفادار ہیں جو اللہ نے ان کی طبیعتوں میں رکھا ہے۔

اس لئے وفاداری یہ ہے کہ ہم اپنی فطرت سے مخلص ہوجائیں" 

(اک نامکمل اقتباس)

 

اور یہی "عہدالست" کے اس پہلو کا "موضوع" بھی ہے۔ 

 

ناول کا دوسرا اہم ترین اور معصوم کردار "نور محمد" ہے____

کہانی کا یہ پہلو ہمارے معاشرے میں عام اور زہر قاتل کا کام کرتا ہے۔

 

نور محمد کی داستان عیاں کرتی ہے کہ بچوں کےلئے والدین کا اوور کانشیس ہونا اور نمبروں کی دوڑ میں بھاگنے والی مشین سمجھ لینا کس قدر تباہی کا باعث ہے۔ 

 

اولاد کے مستقبل کےلئے فکرمندی فطری سہی لیکن ہر تیسرے بندے کا المیہ ہے کہ اپنی محرومیوں کا ازالہ اپنی اولاد میں تلاشنا اور ان پر برداشت سے بڑھ کر سختیاں و ان نیچرل بی ہیویئر سدھار کی بجائے ذہنی توازن کھونے اور خودکشی جیسے بدترین نتائج کی صورت نکلتا ہے۔ 

اور یہی نور محمد کے ساتھ ہوا____

بورڈ کا پوزیشن ہولڈر ہونہار بچہ ذہنی توازن کھونے کے بعد ملک بدر اور "دہشت گرد" مشہور ہوکے گوانتانا موبے جا پہنچتا ہے اور بلاآخر ایک رات قرآن پاک کو بے حرمتی سے محفوظ رکھتے رکھتے موت کے منہ میں۔۔۔۔۔

کہانی کی سانس اس نقطے پر اس کر تھم سی جاتی ہے۔ 

تو کیا نور محمد واقعی مر گیا تھا؟ 

وہ بہترین آئی کیو رکھنے والا معصوم انسان کہاں زندہ تھا؟ 

"عہدالست" کا یہ پہلو عبرت لئے ہوئے ہے۔ 

ہمارے ملک کو ان جیسے ہیروں کی جتنی ضرورت ہے وہ اتنے غلط رویوں کی نذر ہوکر ختم ہوجاتے ہیں۔

 

تیسرا ٹریک زارا اور شہروز____زارا رحم دل,حساس اور درد رکھنے والی مسیحا جبکہ اسی کا منگیتر صحافی شہروز شہرت و چکاچوند کا بھوکا جو خود غرضی و لالچ میں غلط صحیح کی تمیز بھول کر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار بلاشبہ ہمارے ہی معاشرے کا جیتا جاگتا کردار ہے جو اونچائی پر پہنچنے کےلئے شارٹ کٹ کے متلاشی ہوتے ہیں۔ 

 

پورے ناول میں شہروز کی بے حسی سخت غصہ دلاتی رہی, شہروز کو عبرت کا نشانہ بنانا چاہیئے تھا۔ 

لیکن شاید ان مرکزی کرداروں کی خاصیت یہ بھی تھی کہ کوئی شدت پسند نہ تھا ان میں لچک موجود تھی جو بلآخر ہدایت کا روزن ثابت ہوتی رہی اور شہروز نے بروقت اپنے راستے بدل لئے۔ 

شہروز کی والدہ جیسی ماؤں کی عظمت کو سلام جو آج بھی اپنے بچوں کو سیدھا راہ دکھانے کا گُر مٹھی میں رکھتی ہیں۔ 

 

اس ناول کا آخری ٹریک عمر (نور محمد کا بہنوئی)____عمر کے ذریعے مصنفہ نے مجھ جیسے حب الوطن بندے کا دل محبت و جذبات سے سیراب کردیا۔ 

عمر شروع میں جتنا لاپروا, غیر سنجیدہ اور لااُبالی تھا درمیان میں اتنا ہی مضبوط اور چیختا کردار ثابت ہوا۔ اپنے ملک کی برائی کرنے اور دوسرے ملکوں کو سراہنے والوں کےلئے اس میں منہ توڑ جواب ہے۔

غیر ملکوں میں رہتے جن تعصبات و مشکلات کا سامنا مسلمان اور خصوصاََ پاکستانیوں کو کرنا پڑتا ہے اسکا نقشہ ناول میں خوب کھینچا گیا ہے۔ اس مصنوعی معاشرے کو اپنی تمام عمر, توانائیاں, صلاحیتیں دینے کا کیا فائدہ جہاں شخصی آزادی حاصل نہ ہو____

جہاں آپ صحیح غلط نہ کہہ سکیں وہاں رہ کر کیا حاصل۔

پاکستان اسی لئے کمزور ہے کیونکہ اسے اسکے اپنے لوگ کررہے ہیں۔ اور پاکستان کی ناقدری کررہے ہیں حالانکہ اپنا وطن حوالہ ہوتا ہے, پہچان ہوتا ہے اور زمین پر جنت بھی۔ 

یہ اسی جنت کی اسی سبز خطے کی کہانی بھی ہے۔

 

عمر اور سلمان (ٹیپو) جیسے لوگ ملک و ملت کا سرمایہ ہیں۔ میری خواہش تھی کہ کاش زارا سلمان عرف ٹیپو کا نصیب ہوتی۔ 

ناول کے اختتامی صفحے نسبتاََ کم جاندار ثابت ہوئے۔ 

*سلمان اور ٹیپو ایک کردار کے دو رخ___مگر نجانے کیوں یہ واحد کردار تھا جسکی حقیقت کھلی تو اجنبیت ہی قائم رہی۔ 

ٹیپو سے اپنائیت جبکہ سلمان سے وہ تعلق قائم نہ ہوسکا۔ لگا ہی نہیں کہ دونوں ایک ہیں حالانکہ سلمان حیدر بھی مثبت رہا۔ 

 

 *دوسرا نور محمد سے اس کی ماں کی محبت بھی ہضم نہ ہوسکی, کیونکہ بچپن میں بیٹے پر ہوتے ظلم پے دبی آواز بھی شوہر کے سامنے نہ بلند کرسکیں اور اچانک ایسی محبت۔ ماں کی محبت پے شک نہیں مگر پھر بھی ہضم کرنا تھوڑا مشکل ہوا۔

*شہروز کےلئے ایئر پورٹ پر ہوئی "بے عزتی" بڑی کاری تھی پھر بھی اسکےلئے کچھ مزید سزا بنتی تھی جو اسے زندگی بھر اسکے غلط قدم کی یاد دلاتی, مگر اسے یہاں مارجن دیا گیا ہے۔ 

 

*زارا کی جذباتیت خامی نہ سہی مگر اپنے پیشے کے لحاظ سے سٹرونگ نہ رہ پانا ضرور کمزوری تھی۔ مصنفہ کو یہاں جتانے کی ضرورت تھی کہ مسیحائی میں حاضر دماغی اور چوکنا پن زندگی موت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ 

اس سے ہٹ کر یہ ایک کلاسک ناول ہے۔ 

 

#تنزیلہ ریاض کا یہ ماسٹر پیس اس سے کم پسند کیا گیا جسکا دراصل حقدار ہے۔۔۔اسکی ایک وجہ مصنفہ کا شاید وہ لمبے لمبے پیراگراف لکھنا سمجھ آتا ہے جس نے اسے قدرے خشک کردیا۔ ورنہ اس میں قلم کی جولانی, لفظوں کی ترنگ, بنت و خیالات کی عمدگی, انداز بیاں عروج پر ہے۔ ممکن ہے اپنے وقت پر یہ پزیرائی پاتا رہا ہو مگر میرے نزدیک اسکا قد اس سے بہت اونچا ہے۔ 

 

اختتام پر عہدالست کا نچوڑ بیان کرتیں یہ سطور ملاحظہ کریں۔ جو توانائی سی بھر دیتی ہیں۔۔۔۔اُمید و یقین کی طاقت ور گولی۔ 

 

(ریاست سات ستونوں پر چلتی ہے۔ مجھے یہ امر حیران کرتا ہے کہ ساتوں ستونوں کے اس قدر کمزور ہونے کے باوجود اللہ نے اس ریاست کو کس کے سہارے چھوڑ رکھا ہے۔ میرے دوستو۔۔۔۔ریاست کا آٹھواں ستون بھی ہوتا ہے اور وہ آٹھواں ستون "ماں" ہوتی ہے۔ 

وہی دراصل کسی ریاست کی طاقت کا سب سے بڑا منبع ہوتی ہے۔ 

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کی ماں کمزور پڑتی جاتی ہے۔

آج کی ماں بچے کو سکھاتی ہے کہ تم جاؤ اور سب کو پیچھے چھوڑ دو____

ماں کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس سے کتنے بگاڑ پیدا ہوتے ہیں۔ 

وہ یہ کیوں نہیں سکھاتی کہ سب کو ساتھ لے کر چلو اسی میں بھلائی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ آپ چاہتے ہیں آپ کا بچہ نیک بنے تو آپکو اپنے ہمسائے کے بچے کو بھی نیک بنانا پڑے گا۔

معاشرے تب ہی متوازن ہوتے ہیں )

(نامکمل اقتباس)

اور یہ "عہدالست" ہے_____!! 

 

عہدالست کا موضوع بھی "محبت" ہے لیکن یہ محبت سحرزدہ کرتی ہے۔ 

یہ "ماں" کی محبت کی کہانی ہے۔ 

"اللہ" کی ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کی کہانی____

اپنی فطرت, اللہ اور رسول صہ سے محبت سکھاتی ہے۔ 

یہ دنیا کے صفر کو دین کی اکائی کے ساتھ ملا کر دس بنانے کا درس دیتی ہے۔ 

ورنہ دنیا کسی کام کی نہیں______

 

میں اس کتاب پر کچھ کہنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا لیکن اسکے سحر سے نکلنے کا یہی ایک راستہ تھا کہ اس پر کچھ لکھا جائے۔ 

اب آپ اسے پڑھیں۔۔۔۔

یہ "تفریح" کےلئے نہیں ہے۔ تفریح کےلئے آپکے پاس بہت کچھ موجود ہے , اگر آپ کے پاس آپکی ذات کےلئے کچھ وقت ہے۔۔۔تب آپ یہ وقت "عہدالست" کو دیں۔ 

یقیناََ یہ آپکے ذہن و قلب پر ان مٹ نقش چھوڑے گا۔ عہدالست دین نہیں سکھاتا۔ 

یہ آئینہ دکھا کر صرف مہذب سا سوال کرتا ہے۔ 

 

"اے گوشت کے لوتھڑے 

خاک و آب کے امتزاج تُو مجھے بتا۔۔۔۔

کیا واقعی انسان ایک حقیقت ہے۔۔۔۔۔؟

کیا واقعی دنیا ایک حقیقت ہے۔۔۔۔؟ 

 

والسلام 

#حصار__علی