تبصرہ۔۔۔ " خالی آسمان" مصنفہ ۔۔۔ "سائرہ رضا "
تبصرہ نگار۔۔ "کومل نور"
مجھے مطالعہ کا شوق ہونے کے باوجود ناول پڑھنے کا موقع بہت کم میسر ہوتا ہے اس کی وجہ شاید ہمارے ہاں ناولوں کے تئیں دبی دبی سی سرزنش ہوتی ہے۔ ناول وہ تحریر سمجھی جاتی ہے جس میں لڑکے اور لڑکی کے حسن کی تعریف ہو، باہمی راز و نیاز کی باتیں ہوں، رومانس ہو ، باہم محبت کرنے والوں کا ماننا اور روٹھنا ہو، پھر ناچاہتے ہوئے بھی انسانی طبعیت ان پیارے بھرے ذومعنی لفظوں کی طرف مائل ہوتی ہے اور اثر قبول کرتی ہے ۔
مگر ناول "خالی آسمان " جس میں بظاہر ان میں سے ایک بھی بات نہیں پائی جاتی اس کے باوجود مجھے بار بار رغبت ہوئی کہ اس ناول کو نا صرف میں پڑھوں بلکہ میری سعی ہے کہ بہت سے لوگوں کی توجہ بھی اس ناول کو حاصل ہو۔ کیونکہ اچھی تحریر تو باربار پڑھی جاسکتی ہے
اس میں حسن پرستی کا تڑکہ نہیں بلکہ دیسی تڑکہ لگا کر ناول کے ایک منفرد انداز سے روشناس کروایا گیا ہے۔ اور محبت کو مختلف پیراؤں میں ڈھال کر ایک مکمل معاشرہ بنایا گیا ہے۔
تحریر کی سادگی پنجابی زبان کا ہلکا پھلکا استعمال اس کے حسن کو بڑھاتا ہے اور لفظوں کو اردگرد فالتو جمھیلوں میں استعمال نا کرکے بلاشبہ ایسی داستان رقم کی گئی ہے کہ ہر کوئی ایسی خوبصورت تحریر سے مستفید ہوسکتا ہے۔
داستان حقیقی ہو یا مجازی ہمارے معاشرے میں ماں کے کردار سے ہر کوئی متاثر ہوتا ہے کیونکہ اس کی محبت آفاقی ہوتی ہے محبت کی لازوال مثال ہوتی ہےماں آخر ماں ہی ہوتی ہے جس کے لیے اس کی معذور اولاد کو چھوڑنا بھی گراں ہوتا ہے ۔ چاہے وہ شاطرانہ مزاج معصومہ کی ماں چاچی خیر دین کی چاپلوسی اپنی بیٹی کے لیے ہو یا اولاد کے حصول کے لیے اپنے قبیح جھوٹ کا اعتراف کرتی معصومہ ہو۔
لیکن بے جی کے شکر اور صبر جیسی صفات انہیں ممتاز بناتی ہیں۔ جیسا کہ سائرہ رضا نے کہا کہ
ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے لیکن اگر اولاد معذور ہو دماغی طور پر ناسمجھ تارے ہو تو اس جنت کا کیا درجہ ہوگا۔۔۔!!
ہم اللہ کے فیصلوں پر راضی رہ کیسے قلبی اطمینان حاصل کرسکتے ہیں بے جی کی تارے کے تئیں محبت نے مجھے سکھایا اور جہاں الفاظ سے لوگ روٹھتے ہوں آپ کےحق بجانب ہونے باوجود غلط تصور کیے جائیں وہاں معاملات کو اللہ کے سپرد کرکے خاموشی اختیار کرنا سب سے بہترین راہ ہے۔اپنے پتر کے مقدمے ڈھٹ کر مقابلہ کرنے والی ماں کی محبت لازوال تھی۔ بے جی گو کہ ایک متاثر کن شخصیت تھی۔
مگر اس کے باوجود مجھے سب سے زیادہ تارے کا کردار بھایا ہے جس نے اس ناول میں جان ڈال دی۔ خوشی اور غم کے جزبات خود بخود محسوس کیے جاتے ہیں ان کے لیے کسی قسم کی کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور "طاہر پرویز " عرف "تارے" اس بات کو بے عقل ہونے کے باوجود ثابت کرتا ہے
بےجی کی دعا جو سات سال بعد قبول ہو ۔ بے جی کا عرضی جو کبھی زمین پر لوٹ پوٹ ہوتا نظر آتاہے تو کبھی گلیوں میں ڈول پٹتا ہوا پایا جاتا ہےیا پِنڈ والوں کے لیے اللہ کی وہ آزمائش ہے جس کو نہ سمجھنے والے لوگ وقتی طور پر پسِ پشت بھی ڈالتے ہیں اور سمجھ آنے پر محبت بھی نچھاور کرتے ہیں۔۔
اللہ پاک نے کوئی چیز بیکار نہیں پیدا کی ہر پیدا کردہ چیز کے پیچھے کوئی مقصد ضرور واضح ہوتا ہے اور بات وہی کہ غور کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہوتی ہیں ۔۔
احساس ومحبت کا جذبے کسی کو بھی بدلنے کا بہترین ہتھیار ہوتے ہیں یہاں تک کہ کند زہن تارے کو بھی ۔ اور اپنی پٹائی ہونے پر انصاف کے لیے پنچایت رکھنے والے اسلم کو بھی۔۔
پَھڈے باز تارے نے بچپن سے جوانی تک اگر طالب سے دشمنی نبھائی تھی تو اس کے کاکے شُجاع کی محبت میں طالب کی ہر بات ماننے پر راضی بھی ہو گیا تھا انڈہ سر والا تارےکبھی گنے کی فصل تباہ کرکے اسلم کی خوب پٹائی کرتا ہے اور پنچایت میں درخت کے ساتھ بندھا تارے اپنے آپ کو اسلم کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے جی کے انصاف کا بھرم بھی رکھتا ہے۔
شرمیلا تارے جو نئی دلہن کی کھنکتی چوڑیوں اور گھنگرو سے بجتے پراندےپر حیران بھی ہوتا ہے اور وہیں عابدہ کی فراخ دلی کو دیکھتے ہوئے اس کے گوٹے سے آرائش کردہ دوپٹے کو اپنے گلےمیں لٹکا کر گھر سے بھاگ کر انہیں مٹیوں مٹی کرنے پر خوش بھی ہوتا ہے۔ خوش مزاج تارے سارے پنڈ کی توجہ کا مرکز بنتا ہے ۔ کم عقلی پر ابا کی مار پر " ابا
کھوتا ہے" کی رٹ کئی عرصہ تک لگاتا ہے وہیں لگاؤ ایسا کہ ابا کی قبر پر سے لپٹ کر دہائی دیتاہےکہ" تارے ابا اندر ، ابا بار آ " معصومیت میں کبھی عابدہ کے پتر کو دودھ پلانے کی ناکام سعی کرتا ہے اور وہیں معصومہ کی چالاکیوں سے نا آشنا ہوکر طارق کے ہاتھوں سے مار کھاکر محبتیں سمیٹنے والا بے جی کا عرضی جب نفرت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے تو آنکھیں بے دریغ ڈبڈبا جاتی ہیں۔
تارے کی ناسمجھی اور محبت دونوں ہی متاثرکن تھےاس کردار سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے عقل نہیں محبت کی ضرورت ہوتی ہے اپنوں کا ساتھ لازم وملزوم ہوتا ہے اور جہاں یہ احساس ختم ہوکر حسد و نفرت کے اصولوں پر پرکھا جائے وہیں قربت کے رشتے ڈگمگا جاتے ہیں اور ایک نا ختم ہونے والا فراق جنم لیتا ہے جو اُس منہدم عمارت کی طرح ہوتا ہے جو مسلسل اندر سے ڈھائی جارہی ہو۔
عابدہ اور طالب ہمیں مبہم بناتے ہیں ہمیں سلیقہ و شعار کی زندگی جینا سکھاتے ہیں۔ احساس کی تصویر کشی کرتی عابدہ کے یہ الفاظ دل میں گھر کرگئے کہ
"یا اللہ تو کیسے رنگ دکھاتا ہے کیسے ڈھنگ بتاتا ہے
کچھ کو عقلوں والا بناتا ہےاتنا کہ وہ چاند پر پہنچ جاتے ہیں کچھ کو بے عقل مگر ایسے کہ وہ زمین پر رہ کر چاند کی طرح دمکتے ہیں اور سورج بھی ان کے آگے شرماتا ہے ایسا چاند جو کبھی بدلی کے اوٹ میں نہیں جاتا وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے دل محبت سے لبریز ہوتے ہیں۔۔ بھلا محبت سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہوتی ہے"
گویا کہ دل کی تار کو چھیڑنے والے یہ ایسے عمدہ الفاظ ہیں جو واقعی داد کے لیے لفظوں کے محتاج نہیں۔۔
محبت آسمانی ہے اور ایسے انمول تحفے ہر ایک کو ودیعت نہیں کیے جاتے معصومہ کی حقارت اور خود ستائشی اس تحفے کے لیے رکاوٹ تھی جو اپنی انا کے مسئلے کو حل کرنے سے ہی دور کی جاسکتی تھی۔
طارق اور معصومہ کا رشتہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کیسے دل کی محبت خون کی محبت پر غالب آتی ہے ۔
ماضی کے تفاوت اور ایسے افترا جن پر انسان کو پچھتاوا نا ہو بلکہ فخر کی سیڑھی پر بیٹھ کر مستقبل کی بلندی پر چڑھنے کے خواب دیکھے جائیں وہ وقتی طور پر تو قابلِ تعبیر نظر آتے ہیں مگر بہت جلد خواب کے یہ گھروندے خاک میں ملیامیٹ ہوجاتے ہیں۔ ماضی تو خاک میں لُتھڑا ہی ہوتا ہے اور ساتھ ماضی کے یہ کارنامے ہمارے حال کو بھی بے حال کرتے ہیں اس کے ساتھ ہی مستقبل کے مقامات کو بھی اندھیرے اور پچھتاوے کی سبیل دکھاتے ہیں۔ معصومہ جیسے لوگ آج کے زمانے میں بھی ہمیں ایسا درس دینے کے لیے موجود ہیں۔
یہ ایک ایسی تحریر ثابت ہوئی کہ جس میں ہم اپنے اردگرد کسی نا کسی کردار کو دیکھ سکتا ہے۔ ہر موقعہ پر انسانی رویوں کی کشمکش اور رشتوں کی پائیداری و نا پائیداری کا خوبصورت عکس پیش کیا گیا ہے جس میں جملوں کا ربط بڑا کمال کا تھا ۔
مصنفہ نے اپنے خیالات کے زریعے جو سبق دیا ہے اس کے پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں اس بات کو با خوبی آگاہ ہونا چاہیے کہ معاشرے میں موجود تارے جیسے لوگ ہمارے لیے نشانیاں ہیں کہ ایسے لوگوں کی قدر کرکے ہمیں اپنے صحیح سالم ہونے پر اللہ کا ڈھیروں شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس ذات کا کرم ہے اُس نے ناہمیں جسمانی معذور بنایا ہے اور نا ہی ذہنی طور پر مقفل رکھا ہے۔
مگر ان سب کے باوجود میرے دل میں ایک خلش تھی بس پتا نہیں کیوں مجھے لگا کہ بے جی کے ہجر کو وصال کو بدل دینا چاہیے تھا۔ زمین کے تارے کی کہیں سے خبر ضرور ملنی چاہیے تھی۔
اس کے ساتھ ایک تمنا بھی ہے کہ اگر کبھی معززسائرہ رضا سے میری ایک ملاقات ہوتی تو میں ان سے پوچھتی کیسے آپ نے اتنی خوبصورت داستان تخلیق کی ۔ لوگ کی آسمان کے تاروں سے نظر نہیں ہٹتی مگر کیسے آپ نے زمین کے تارے کو دیکھ لیا اور اس کو اپنے خیالات سے کیسے چمکایا کہ وہ ہمارے خیالات کو روشن کر رہا ہے۔۔!!!
#ختم شد#