ری ویو ٹائم ان ناول ورلڈ

2020-05-26 19:40:02 Written by محمد شاہد

کتاب : حجاز کی آندھی از عنایت اللہ

تبصرہ : محمد شاہد

 

وہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہرگز نہیں سوتی اردو وہ زبان ہے جو نافذ نہیں ہوتی٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠

گذشتہ صدی عظیم قربانیوں کے بعد برصغیر کی تقسیم ہوئی اور ملک پاکستان معرضِ وجود میں آیا یہاں کی قومی زبان اردو قرار پائی اور دفتری زبان انگریزی جو تاحال جاری ہے ٠ اردو زبان ایک قومی زبان ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ قدیم و جدید ماہرینِ ادب کے قلم و قرطاس کی زینت بنی رہی ہے اور اس زبان کے لکھاریوں نے اس کی بہت ساری اصناف وضع کی ہیں جن میں افسانہ،ناول، داستان،سفرنامہ،آپ بیتی، تحقیق،تنقید،انشائیہ،طنزومزاح اور خاکہ نگاری خاص طور پر شامل ہیں اس کے علاوہ اشعار میں طویل نظمیں رباعیات غزل وغیرہ نمایاں طور پر موجود ہیں٠ منجملہ ان تمام اصناف کے ناول نگاری کو اردو ادب میں ایک خاص مقام حاصل ہے اردو ادب کا سب سے پہلا ناول 1869 میں شائع ہوا تھا اس لحاظ سے اردو ناول کی عمر 151 برس بنتی ہے ان سالوں میں عالمی ادبیات کے معیار پر پورا اترنے والے ناولوں کی تعداد محض انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے ہرچند کے ناول کی کتابیات پر نگاہ ڈالیں تو بے شمار ناول اور ناول نگاروں کے نام نظر آتے ہیں٠ اگر ناول سے مرادکوئی بھی طویل کہانی واقعات کا تانابانا تھوڑی سی منظر نگاری کچھ مکالمہ نگاری ہو تو یقینا اردو میں بے شمار ناول مل جاتے ہیں اور اگر ناول سے مراد ایسی تحریر ہے جو شعور زیست کے ساتھ ساتھ شعار زیست بھی دے جو کرداروں کے حوالے سے انسانی زندگی کو روشن کرے جو وقوعات کے محرک بننے والے عوامل کی نشاندھی کرے اور سب سے بڑھ کر انسانی سماج اور انسانیت کا مطالعہ پیش کرے اگر یہ خصوصیات ناول کے لوازم میں شامل ہیں تو پھر واقعی ہمارے ہاں بہترین ناولوں کی افسوسناک حد تک کمی ہے٠ ہمارے ناولوں میں کہانی بھی ملتی ہے اور کردار بھی مناظر بھی ہوتے ہیں اور جذباتی مکالمے بھی لیکن ان سب کے امتزاج سے وہ قوت وجود میں نہیں آتی جو پڑھنے والے کے لئے ترفع پیدا کرنے کا موجب بنے٠ اس کی ایک بڑی وجہ زندگی کے بارے میں ناکافی تجربہ سے جنم لینے والا محدود زاویہ نگاہ بھی ہے جس پر مستزاد تخلیقی توانائی میں عمومی کمی اسی لئے تو ہمارے ہاں اب تک نام نہاد سماجی مسائل اہم نظر آتے ہیں اور اصلاحی رومانوی اور تاریخی ناول چھپتے رہتے ہیں ان میں عورتوں کے لکھے ناول بھی شامل کر لیں تو ناول کی کسمپرسی کی تصویر مکمل ہوجاتی ہے٠ بڑا ناول بڑے ادب بلکہ بڑی قوم کی پہچان ہے فی زمانہ اگر ایک اچھا ناول مل جائے تو بڑی بات ہے لیکن ایسا اس لئے نہیں ہوتا کہ تخلیق کار موجودہ دور کی تیز رفتاری اور عدیم الفرصتی کی وجہ سے اپنا ید بیضا کھو بیٹھا ہے٠ تاریخی ناول نگاروں کے ناموں کا اگر مطالعہ کیا جائے تو بے شمار مصنفین نظر آئیں گے جن میں ایک نمایاں نام عنایت اللہ (التمش)کا بھی ہے۔

ان کے ناولوں میں مستند تاریخ بھی ملتی ہے ہے اور اس کا حوالہ بھی اور جو اسلامی تاریخی ناول انکے ہیں ان میں تمام کردار اور واقعات حقیقی ملتے ہیں انہوں نے اپنے اسلامی تاریخی ناول کے ذریعے سے قومی ترقی اور اسلامی جوش مہیا کرنے کی کوشش کی ہے ان کے اسی سلسلے کی ایک کڑی (حجازکی آندھی) ہے٠ اس کتاب میں تاریخ اسلام کے باب میں ایک اہم شخصیت خلیفہ ثانی امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے کی فتوحات کا صاف اور کھلے الفاظ میں تذکرہ کیا گیا ہے اور ان کی شخصیت اور قیادت کے بیان کے ساتھ ساتھ مجاہدین اسلام کے جنگی کارنامے دکھائے گئے ہیں اور اس کے علاوہ اس میں کہانی کی دلچسپیاں بھی ملتی ہیں لیکن کوئی کردار فرضی شامل نہیں کیا گیا تاریخ کا ذوق رکھنے والے مسلمان دوستوں نے اس ناول کو بہت پسند کیا ہے اس ناول نے اسلامی قوم کے وہ کارنامے ہمیں دکھائے جو بُجھے ہوئے جوشوں اور بے جان حوصلوں کو از سر نو زندہ کر سکتے ہیں اس کا ہر جملہ حمیعت اسلامی کو جوش میں لاتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ جس بھی مسلمان نے اس کا مطالعہ غور اور شوق سے کیا ہوگا اس کے دل میں قومی خون جوش مار رہا ہوگا اور وہ ترقی پر تلا بیٹھا ہوگا٠ تاریخی ناول کی جداگانہ شرائط اور مخصوص مقاصد ہوتے ہیں اور یہی اس کی حدود کا تعین بھی کرتے ہیں اچھا تاریخی ناول لکھنے میں سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ ناول نگار اور اس کے موضوع میں طویل زمانی بُعد ہوتا ہے اس لیے ناول نگار فرسٹ ہینڈ مشاہدہ کے بجائے ریسرچ پر انحصار کرتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ناول نگار ماحول کی مرقع نگاری اور کرداروں کی عکاسی میں بالعموم ناکام رہتا ہے٠ داستان نگاری کا بھی یہی مسئلہ ہے لیکن چونکہ دستان نگار سے حقیقت کی توقع نہیں ہوتی اس لیۓ وہاں کام چل جاتا ہے مگر تاریخی ناول کے کردار یا کم از کم مرکزی کردار حقیقی ہوتے ہیں اسی طرح تاریخی ناول کا تناظر ایک مخصوص عہد،تہذیب یا وقوعہ سے مرتب ہوتا ہے اور صدیوں بعد اسے زندہ کرنا آسان نہیں اس لیے تاریخی ناول نگار پر اکثر اوقات تاریخ مسخ کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے٠ تاریخی ناول سے مشروط ان پابندیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے التمش کے تاریخی ناولوں کا مطالعہ کرنے پر یہ سب خامیاں ان کے ناولوں میں بھی کم و بیش نظر آتی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ ایک بہترین ناول نگار تھے کہ فنی تقاضوں کا ادراک رکھتے ہوۓ دلچسپ پیرایہ میں واقعات کو مربوط کہانی کی صورت دینے پر قادر تھے٠ زیر بحث کتاب میں مصنف سے اسی طرح کی چند ایک خامیاں سرزد ہوئی ہیں جن میں سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ شاہِ فارس خسرو پرویز کے پاس رسول خدا ﷺ کا پیغام لے کر جانے والے آدمی کے بارے میں پہلے یہ لکھا ہے کہ ان کا نام کسی بھی تاریخ میں نہیں ملتا بہرحال وہ صحابیؓ تھے مگر آگے چل کر خود ہی دوسری جگہ پر ان کا نام عبداللہ بن قذافہؓ لکھا ہے اسی طرح شاہ پور کے سفید ہاتھی کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک معرکے میں کہا کہ وہ ندی پر زخمی حالت میں پانی پینے جا رہا تھا اور وہیں کنارے پر مر گیا جبکہ اس کے بعد والے معرکے میں اسے پھر زندہ لکھا گیا ہے اور دونوں معرکوں میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے اس کے علاوہ کٸ چیزوں کا ذکر بار بار بلا ضرورت کیا گیا ہے جس سے نہ صرف کتاب کا حجم بڑا ہوتا ہے بلکہ ذہین قاری کے لیے اکتاہٹ کا سبب بھی بنتا ہے جیساکہ ارتداد کا تذکرہ،مثنیٰ بن حارثہ کی عراق کے لیے کمک اور ان کے زخم کا تذکرہ،نبی اکرم ﷺ کے پیغام کی توہین کا ذکر، یہودی راہب کے جادو کا ذکر اور اسی طرح کئی اور چیزوں کا ذکر بلاضرورت اور بار بار کیا گیا ہے جس کا نقصان اوپر گزر چکا ہے٠ اس سب کے علاوہ ایک اور صریح غلطی یہ ہے کہ یزدگرد کو جب تخت پر بٹھایا گیا تھا تو اس وقت اس کی عمر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کی عمر اتنی ہو گئی تھی کہ وہ سمجھدار لگتا تھا یعنی کہ بیس بائیس سالہ جوان اور جب تین سال کے عرصے میں اسلامی فوج نے اس سے تمام علاقے چھین کر اسے حلوان کے مقام تک پہنچا دیا تو اس کی عمر انیس سال لکھ کر یہ کہا کہ تخت نشینی کے وقت اس کی عمر سولہ برس تھی٠ یہ بات ایک تاریخی اور بالخصوص اسلامی تاریخی ناول کی خصوصیات سے ہٹ کر ہے کہ ایک ہی کتاب کے واقعات آپس میں گڈمڈ ہیں اور ان میں کسی طرح کا ربط موجود نہیں٠ اس سب کے باوجود بھی بہت عمدہ ناول ہے اور اس میں ہر طرح کی وہ جھلک ضرور دکھائی دیتی ہے جو ایک اسلامی ناول میں ہونی چاہیے٠ ایک جگہ پر مجاہدین کے لشکر کی تعداد میں شعراء اور خطیبوں کو بھی شامل کیا گیا ہے اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مشہور شاعر اور بڑی بڑی جامع مسجدوں کے خطیب ہونے کے باوجود بلا کے تیغ زن اور شہسوار بھی تھے جو اس وقت عراق کے محاذ پر جانے والے لشکر میں شامل ہو گیۓ تھے گو اس وقت کے شاعر آج کل کے شاعروں جیسے نہیں تھے جن کا مقصد صرف مشاعرے پڑھنا اور داد وصول کرنا ہے اور اس وقت کے امام اور خطیب بھی موجودہ دور کے اٸمہ کی طرح نہیں تھے جنہوں نے قوم کو فرقوں میں تقسیم کر کے ایک ایک مسجد پر قبضہ کر رکھا ہے ٠ اس بات میں بہت بڑا سبق اور پیغام موجود ہے مذھبی رہنماؤں کیلیۓ اور اسی طرح دوسری جگہ پر امیرِ لشکر کی بزرگ شہری سے ملاقات پر بزرگ کی نصیحت آج کل کے جابر حکمرانوں کیلیۓ واضح نصیحت ہے٠ اس کے علاوہ بھی کٸ باتیں کہانی سے ہٹ کر اس کتاب میں ایسی موجود ہیں جو انسانی زندگی کی تاریکیوں کیلیۓ مشعلِ راہ ثابت ہو سکتی ہیں٠ آخر میں اپنے تمام قارٸین کرام سے گزارش ھیکہ اس ناول کا مکمل مطالعہ کریں مجھے امید ہے کہ اس سے بُجھے حوصلوں میں نٸ جان آۓ گی اور ہر مسلمان کی جان میں اسلامی روح بیدار ہو گی٠ ٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠اختتام ٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠