ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-05-28 19:07:16 Written by عائشہ رانی

تبصرہ

از عائشہ رانی

دیمک زدہ محبت

 از صائمہ اکرم چودھری

یہ محبت کی ایسی لازوال داستان ہے جس نے آغاز سے اختتام تک اپنے قاری کو سحر میں جکڑے رکھا۔۔

یہ کہانی ہے اس عشق کی جسے سکینہ کبڑی نے امر کردیا۔یہ کہانی ہے اس منچلے سادہ نوجوان جاجی کی جس سکینہ کی محبت کا حق ادا کردیا۔۔اور ہمیشہ کے لئے یادگار بنا دیا

یہ کہانی ایک ایسے اپاہج فوجی کی ہے جو جینے کی امید کھو بیٹھا تھا پھر اسکی زندگی میں ایک ایسی لڑکی نے رنگ بھر دیے جس نے اسے صرف اپنے تخیل میں پایا اور محبت کر بیٹھی۔۔

        صائمہ اکرم چودھری کے تمام  ناولز بے مثال ہیں لیکن اس ناول کی خاص بات وہ خوبصورت کردار ہے جو دنیا والوں کے لئے ان پڑھ اور سادہ تھے لیکن درحقیقت وہی کردار انسانیت کے لئے مثال تھے وہی اپنے رب کے قرب والے تھے جو دنیاوی بناوٹ اور مصنوعی پن سے پاک تھے

سکینہ اللہ دتا ناول کا مرکزی کردار تھی ایک ایسی سادہ اور صاف دل لڑکی جس نے بچپن کھیلتے کودتے گزارہ اور جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہی ایک ایسی بیماری کا شکار ہوگئ۔۔ایک   رات جب تیز بخار کی وجہ سے اسے گاوں میں کوئی ڈاکٹر میسر نہ آ سکا اور اسی بخار کی وجہ سے اس کی کمر پہ کوہان ابھر آیا جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی۔  اس بیماری نے تادم مرگ اس کا ساتھ نہ چھوڑا۔۔

اسلام آباد کے ہسپتال میں ڈاکٹر خاور سے عشق کر بیٹھی۔ایسا عشق جس کی وہ خواہش تو کر سکتی تھی لیکن پانا مشکل تھا۔۔سکینہ چھوٹے سے گاوں کی غریب لڑکی تھی جس کے پاس نہ حسن تھا نہ دولت۔وہ چپکے چپکے اپنے عشق کو سینچتی رہی اور پھر اسی عشق کی تمنا لیے دنیا سے رخصت ہو گئی۔۔

ناول کا سب سے خوبصورت پیراگراف یہ لگا مجھے۔۔

دیکھو سکینہ ،میری پروفیشنل زندگی کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر خاور کے لیے اُس کا ہر مریض وی آئی پی ہوتا ہے۔اس لیے کہ میں اپنی ملازمت کو ہمیشہ عبادت سمجھ کر ادا کرتا ہوں۔مجھے اپنے پروفیشن سے محبت نہیں عشق ہے۔میں آخری لمحے تک جدوجہد کرنے کا قائل ہوں۔نیتوں کا حال اللہ جانتا ہے،لیکن آپ میرے لیے ہمیشہ اہم رہی ہیں اور مجھے یہ

کہنے میں بھی عار نہیں کہ نہ جانے کون سی ایسی چیز تھی جو مجھے اپنی بے تحاشا مصرفیت میں بھی آپ کے کمرے کی طرف دھکیل دیتی تھی۔میں آج بھی اُس چیز کو سمجھنے سے قاصرہوں۔‘‘ڈاکٹر خاور کی آنکھوں میں الجھن ہی الجھن تھی۔

’’وہ میری خالص محبت کے جذبے کی سچائی تھی جو آپ کے قدم یہاں روک لیتی تھی۔۔۔‘‘سکینہ نے ان کی مشکل کو آسان کیا۔وہ نظریں چُرا کر رہ گئے’’ہم سادہ دل لوگ کتنی ظالم دنیا میں سانس لیتے ہیں ۔جہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ محبت صرف خوبصورت لوگوں کی معراج ہے۔ وہ کسی عام سی شکل وصورت کے حامل مرد کے ساتھ کسی حسین لڑکی کو دیکھ کر حور کے پہلو میں لنگور کا نعرہ فوراً لگا دیتے ہیں ۔ہم ذہنی طور پر ایک مغلوب قوم ہیں جو حسن اور دولت کے آگے بڑی آسانی سے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ہم انسان ہی انسانوں کو جینے نہیں دیتے۔ہم نے اپنی زندگیاں خود اپنے لیے تنگ کر رکھی ہیں۔اپنے خود ساختہ معیار بنا رکھے ہیں۔ہم نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کی زندگیوں کے فیصلے بھی اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔کتنے عجیب لوگ ہیں ہم،ہے ناں۔۔

 

سکینہ کے والدین کا کردار بہت ہی بہترین تھا وہ سادہ لوگ جھوٹ اور بناوٹ سے نا آشنا تھے ہمیشہ اللہ کا شکر بجا لانے والے ۔۔کبھی کوئی شکوہ نہ کرتے۔

ایسے لوگ بہت نایاب ہوتے ہیں جو صرف اپنے رب کی رضا میں راضی رہتے ہیں۔۔کبھی ناامیدی کی باتیں نہ کرتے۔۔یہاں تک کہ سکینہ کی موت پہ بھی صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔۔

 

ماہم کا کردار ایسی خود پسند لڑکی کا تھا جسے اپنی دولت ،شہرت اور حسن پر بڑا زعم تھا یہی حال اس کی بہن ثمن کا تھا۔۔وہ یہ بات بھول بیٹھی تھی کہ یہ سب شان و شوکت ،حسن فانی ہے ۔۔یہ سب رب کی امانت ہے وہ کبھی بھی واپس لے سکتا ہے۔اور پھر وہی ہوا کہ جو ماہم لوگوں کو مذاق اڑاتی لوگوں سے گھن کھاتی تھی ایکسیڈنٹ میں اپنی دونوں ٹانگیں گنوا بیٹھی اور پھر زہنی توازن بھی کھو دیا۔۔

 

ثنائلہ زبیر ایک بے ضرر سی لڑکی کا کردار جو کہانیاں لکھتی  اور اپنے تخیل کے زریعے لوگوں کو سحر میں جکڑ لیتی اپنے ہی ایک کردار سے محبت کر بیٹھی۔۔اس کی سچی محبت کی وجہ سے وہی کردار اس نے اپنی زندگی میں حقیقتا پا لیا۔۔

         جی ہاں سکندر شاہ کا کردار جو موحد عبدالرحیم  کے روپ میں اللہ پاک نے ثنائلہ کو عطا کیا۔۔موحد ایک فوجی جرنیل تھا جو سوات آپریشن میں اپنی ٹانگیں ملک کے لئے قربان کر آیا تھا۔۔ایک وقت میں تمام دنیا سے روٹھا روٹھا اور ناامید تھا زندگی سے لوگوں سے۔۔لیکن ثنائلہ کو اللہ پاک نےموحد کی قربانی کے صلے میں عطا کیا جو بہترین شریک حیات ثابت ہوئ۔۔

 

عائشہ کا کردار بہت عمدہ تھا وہ ماہم کی دوست اور موحد کی بہن تھی۔بہت ہی معصوم اور محبت بھرا دل رکھنے والی۔ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھتی ہمیشہ دوسروں سے محبت کرتی ۔۔بہت بہترین مصورہ تھی۔۔اپنے فن کے زریعے ایسے اچھوتے خیالات کینوس پہ اتارتی کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا۔۔ اسکی ہر پینٹنگ میں امید محنت اور لگن کا بہترین سبق ہوتا۔۔بہت خوبصورت دل کی مالک تھی ہر کسی کی تکلیف میں پہنچتی۔۔

رامس خاور کا بھائی معصوم سا حساس لڑکا۔۔زرا زرا سی بات پر پریشان ہوجانے والا۔۔ماہم کے ہاتھوں ٹوٹا۔۔ ماہم نے رامس کو صرف اس وجہ سے چھوڑ دیس کہ اس کی ٹانگوں پہ برص کے معمولی سے داغ تھے۔۔پھر اللہ نے عائشہ کو بہن کی صورت اور انابیہ کو شریک حیات کی صورت بھیجا۔۔

اعجاز عرف جاجی گاوں کا سادہ سا نوجوان جو سکینہ کا کزن اور منگیتر بھی تھا۔۔سکینہ کی بیماری کے باجود محبت کرتا تھا۔اور محبت کا حق بھی ادا کیا۔۔سکینہ کی موت کے بعد سکینہ کے والدین کا سہارا بنا اور اپنی بیٹی کا نام سکینہ رکھا۔۔

ڈاکٹر زویا ڈاکٹر خاور کی کولیگ اور بہترین دوست بھی تھی۔۔وہ بھی ڈاکٹر خاور سے محبت کرتی تھی اور محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکے شک بھی کرتی اور سکینہ کا دل دکھا بیٹھی کہ سکینہ ہمیشہ کے لئے دنیا سے چلی گئی۔۔ڈاکٹر زویا نے خود غرضی میں اپنا ہی نقصان کر ڈالا۔

ڈاکٹر خاور میرا پسندیدہ کردار جو اپنے پروفیشن سے عشق کرتا تھا جو لوگوں کی خدمت کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا تھا۔۔جسے سکینہ سے اس کی موت کے بعد عشق ہوگیا اور وہ عشق ہمیشہ اس کے دل میں زندہ رہا۔ اس نےسکینہ کی چھوٹی چھوٹی چیزیں ساری زندگی سنبھال رکھی اور ہر برسی پہ اس کی قبر پہ جاتا۔۔

سکینہ کے نام پہ ایک ٹرسٹ بھی بنوایا جسے سسٹر ماریہ سنبھالتی تھی۔۔۔

یہ پیرگراف دل کو چھو گیا