ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-05-29 18:42:18 Written by شہزادی حفصہ

ناول " پیال ساز "

از قلم " ایمل رضا "

مبصرہ " شہزادی حفصہ "

 

راکھ روکھی ہوئیں سب ہستیاں

در اندر ان گنت ہستیاں

بےطلب ، بےوجہ کی یہ فیاضیاں

اک پیال ساز کی کرم سازیاں 

 

پیال ساز ایک ایسی کہانی ہے جو انسان کو اس کی اوقات بتاتی ہے ، یاد رکھواتی ہے۔

 

پیال ساز کا مطلب پھوس ، پرال یا کوڑا کرکٹ بنانے والا ہے۔ اس ناول میں پیال ساز " اللہ سبحانہ و تعالیٰ " کو کہا گیا ہے….. " نگار " نے کچھ ایسا کہا :

" تم مجھ سے زیادہ گنہگار نہیں ہو...... میں نے اسے پیال ساز کہا ہے……. "

لیکن بقول صغیر ربانی کے " خدا کی ڈھیل کو اس کی کمزوری مت سمجھو زیان "

پیال ساز نے ہی قصہ تمام کیا۔

 

ایک پیڑ ہے برگد کا جو نشانِ خدائی ہے جو ہر راز سے واقف ہے ، جو کہانی کا ہر پہلو جانتا ہے ، جو ایک غار میں ، دبوچ لیتا ہے " زمل " کو ، اس زمل کو جس کے ذریعے انصاف ہوگا۔ تیس سال بعد دو نفوس کا آمنا سامنا ہوگا۔

 

" پیال ساز " ماہنامہ شعاع ڈائجسٹ 2016 میں چھ ماہ قسطوار چلا۔ کہانی وہی پرانی سی لگی لیکن انداز الگ تھا ، الفاظ جدا تھے۔

 

کہانی میں تجسس ملا……. " زیان عالم " کے ذریعے……

 

مرکزی خیال کچھ ایسا ہے کہ " حد سے بڑھ جانے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے ؟" 

 

سین بہت ہی مہارت سے سیٹ کیے گئے....... سدیم کا خوف اور توبہ جس کا اصل راز زمل کو بعد میں پتا چلتا ہے ، زیان کا ذکر لا کر اس کا بیک گراؤنڈ دکھایا ، پروفیسر کی بات سے پروفیسر کا بیک گراؤنڈ دکھایا........ اس طرح کی سین سیٹنگ سے ناول میں حسن رہا ، نکھار رہا۔

 

اگر آپ کرداروں میں الجھ رہے ہیں تو میں آپ کو کرداروں سے ملواتی چلتی ہوں۔

 

1) زمل 

مجھے زمل کا کردار مرکزی کردار لگتا ہے کیونکہ زمل ہی وہ کردار یے جو کہانی کے پچھلے صفحات کھولتی چلی جاتی ہے اور اسے خود بھی علم نہیں ہوتا۔ زمل حساس اور محبت کرنے والی لڑکی ہے۔ اسے صرف اپنے باپ کی صحتیابی چاہیے وہ چاہتی ہے کہ اس کا باپ نفسیاتی کشمکش سے باہر نکل آۓ اور اس کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ اسی کوشش کے دوران اسے باسل سے محبت ہو جاتی ہے جو پاکستانی ماہرِ نفسیات یشار کا چھوٹا بھائ ہے۔ 

 

2) باسل 

ایک لاابالی اور جذباتی لڑکا ہے جسے زمل پہلی ہی نظر میں بھا جاتی ہے ، دل میں اتر کر حدیں پار کر جاتی ہے۔ باسل چونکہ جذباتی بھی ہے لہٰذا جذبات میں بہہ کر وہ اپنا نقصان بھی کر بیٹھتا ہے۔

 

3) یشار 

یشار ایک ماہرِ نفسیات ہے جو زمل کے باپ کا علاج کر رہا ہوتا ہے۔ چونکہ اس کا خون بھی " وہی " خون ہے اس لیے یہ زمل سے اپنی ماں کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔

 

4) نانو 

نانو انار کلی بازار میں " نگار خانہ " چلاتی ہیں۔ دستکاری ، کندہ کاری اور چترکاری کرتی ہیں۔ اپنے دونوں نواسوں " یشار " اور " باسل " کو جی جان سے چاہتی ہیں۔

 

5) زیان عالم 

ناول میں کچھ سطریں زیان عالم کے لیے یوں تحریر ہیں :

شیطان اگر انسان کا روپ دھار لیتا تو اس کا پسندیدہ روپ یقیناً زیان ہوتا۔ 

یہ ناول کا منفی کردار ہے ، وہ کردار ہے جو اپنی حد پار کر گیا ، پھر اس کی رسی کھینچ لی گئ ، اسے اس کی اوقات یاد دلا دی گئ۔

اس کردار میں کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ زیان شرارتی تھا ، شیطان تھا…… تو اسے ٹہری ہوئ محبت کیوں ہوئ ؟؟ یا تو قاری بےوقوف نہ بن سکا یا پھر صرف نگار کو ہی بےوقوف بنایا گیا ہے۔

 

6) نگار 

یہ آج کے دور کی لڑکی ہے جو اپنی زبان پر قابو نہیں رکھ سکتی ، جو سمجھتی ہے کہ وہ سب کچھ کر سکتی ہے ، بہت مضبوط ہے……. لیکن اس کی یہ سوچ غلط تھی ، نگار نے جان لیا کہ وہ مضبوط نہیں ہے۔ 

" شر ، شری ، شیطان " کے آگے اس کی نہیں چل سکی۔ 

" جلد باز ، خطاکار ، گنہگار " کو وہ صرف اللہ کے حوالے کر سکی تھی۔

" پشت پناہ ، سیاہ کار ، گدھ ذات " سے وہ نہیں بچ سکی۔

مگر نگار کے ساتھ اللہ نے انصاف کیا۔ بقول پروفیسر صغیر ربانی کے : " انصاف کا خون نہیں ہوا۔ "

 

7)پروفیسر صغیر ربانی 

یہ فلسفے کے استاد ہیں جو نگار کے پسندیدہ استاد ہیں۔

انہوں نے کبھی شادی نہیں کی (یہ ان کا الگ فلسفہ ہے کہ شادی کیوں نہیں کی؟) مگر مجبوری اور رحمدلی کی خاطر انہوں نے نگار سے شادی کی۔

 

8) سدیم 

سدیم راہِ راست پر آگیا تھا۔ وہ ضمیر کی آواز سے ڈر چکا تھا۔ مگر وہ نگار سے معافی نہ مانگ سکا۔

 

منظر نگاری " ایمل رضا " کو خوب سے خوب تر آتی ہے اور دیکھا جاۓ تو اس ناول میں منظر نگاری نے چار چاند لگا دئیے ہیں۔ شروع کی کچھ سطریں پیشِ نظر ہیں :

اندھیاریاں اوڑھے آسمان سے لپک کر بجلی کا ایک کوندا پھسلا اور دھرتی کی سطح پر پھیل گیا۔ میدان کے وسط میں آگے برگد کے درخت نے اپنی جٹاؤں کو ساکت کر لینا چاہا تھا۔

 

کچھ فلسفے ناول میں موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ مصنفہ نے واقعی بہت محنت کی ہے۔ ملاحظہ کیجۓ :

" انتقام کا کالا موتیا آنکھوں میں اتر آئے تو بہت زیادہ خوں بہا ادا کرنا پڑتا ہے۔ "

" مکڑی نوزائیدہ شکار کے گرد جالا بن دے تو آسمان بجلی کی کڑک سے گونج اٹھتا ہے۔ "

" برگد جو نشانِ خدائی ہے ہمیں بتاتا ہے وہ راز جو الوہیت کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ "

 

مکالمے جاندار رہے جسے پڑھ کر الجھن یا بوریت نہیں ہوئی۔

 

رومانس اس حد تک ہی رہا جہاں تک ضرورت تھی۔

 

تھوڑا بہت مزاح بھی موجود تھا جو چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گیا۔ جیسے :

" اچھا....! " نانو نے اسے نظروں ہی نظروں میں تولا۔ " تم پہلے بھی کافی بار کوشش کر چکے ہو۔ "

" سلور شیٹ تو ہاتھوں سے پھسل رہی تھی۔ مور پنکھ کے تار ٹوٹ رہے تھے۔ راک سالٹ توقع سے زیادہ سخت تھا۔ لیکن یہ..... یہ تو میں جھٹ پٹ کر دوں گا۔ "

 

ناول میں فکشن بھی موجود ہے لیکن اس سے تحریر کا حسن متاثر نہیں ہوا۔ درج ذیل فکشن دیکھیں…... ہر لفظ اپنی جگہ چمک رہا ہے :

لیکن نگار اس پیالے کے اندر اب کچھ اور ہی دیکھ رہی تھی۔ دھوپ سے منعکس ہوتا دلکش منظر آہستہ آہستہ بدل رہا تھا۔ مچھلیاں تیرتی تیرتی نجانے کہاں جا رہی تھیں۔ سادا شفاف پانی سیاہ ہو رہا تھا۔ اور اس کی سیاہی قبر کے اندھیرے سے ملنے لگی تھی۔ نگار کو خوف محسوس ہوا۔

سیاہی میں رفتہ رفتہ کسی چیز نے چمکنا شروع کیا۔ دو آنسوؤں سے….. روتی ہوئی ایک لڑکی کے دو آنسوؤں نے...... اس لڑکی کے بال بکھرے ہوۓ تھے۔ اس کے منہ پر کپڑا کسا تھا۔ اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں بائیں پلنگ کی پشت پر کس کر باندھے گۓ تھے۔ نگار کو یہ منظر جانا پہچانا سا لگا۔ خوف سے اس کے وجود پر کپکپی طاری ہو گئ۔ اس کی آنکھیں پھٹتی چلی گئیں۔

منظر میں پھر وہاں ایک لڑکا نمودار ہوا۔ جس کا پورا چہرہ سفید کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔ ماسواۓ آنکھوں کے اور جو اس لڑکی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ یک لخت نگار نے اس لڑکے کو پہچان لیا اور اس لڑکی کو بھی...... 

 

انسان کی تخلیق کردہ کوئی بھی چیز مکمل نہیں ہوتی ، ہر نقص سے پاک نہیں ہوتی۔ کچھ ایسا ہی یہاں بھی ہے……. ناول میں کچھ یہ سطریں موجود ہیں :

گلناب عالم کردار کی ہلکی نہیں تھی۔ وہ بس ذرا آزاد خیال تھیں ، آوارہ مزاج نہیں..... اسموکنگ بھی کرتی تھیں۔ ان کی سہیلیوں کے ساتھ ساتھ مرد دوست بھی تھے اور وہ ان سب دوستوں سے کافی زیادہ بےتکلف بھی تھیں۔ ان کے گھر میں آۓ دن پارٹیز ہوتی تھیں جس میں شراب کو ممنوع نہیں سمجھا جاتا تھا۔ گیٹ ٹوگیدر کر کے باقاعدہ جوا بھی کھیلا جاتا تھا۔ اپنے لباس کے معاملے میں گلناب عالم بےخوفی کی حد تک لاپرواہ تھیں۔

اب ذرا مجھے یہ بتائیے کہ کیا یہ واقعی آزاد خیالی ہے ؟ یعنی کہ ہمارے معاشرے میں جو آزاد خیالی کو ڈیفائن کیا جاتا ہے وہ ایسا ہے جیسے بیان کیا گیا ہے ؟ آوارہ مزاجی اس سے بھی آگے کی چیز ہے ؟؟

اس کردار میں کہیں کہیں کچھ ٹھیک نہیں ہے….. انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا ، وہ شرمندہ ہوئیں ، وہ نگار سے معافی مانگنے گئیں لیکن ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہوۓ وہ یشار اور باسل کو گلے سے لگا گئیں ؟ ان کی ذمہ داری خود پر لازم کر لی؟ چلیں یہ ممکن ہے کہ زیان نے جو ان سے کہا کہ آپ کے پاس میرے لیے وقت ہی نہیں تھا اس لیے وہ یشار اور باسل سے محبت کرنے لگیں....... لیکن دوسری طرف انہیں زیان سے ایسی ہی توقع رکھنی چاہیے تھی……. جب وہ انہیں کے سامنے جام پر جام چڑھا سکتا ہے تو کسی عورت کو بخش سکتا ہے ؟ وہ کیسے پارسا ہو سکتا ہے ؟ 

گلناب عالم کا کردار اور بھی زیادہ پُر اثر ہو سکتا تھا اگر ان کے ہر جذبات ، احساسات اور رویّے کو تھوڑا اور واضح کیا جاتا۔

 

اور جب زیان نگار کے گھر آیا تو کیا اس نے گلناب عالم کو پہچانا ؟ یہ سمجھ نہیں آئی....... ایک طرف لکھا ہوا ہے کہ نانو بہت رو چکی تھیں....... دوسری طرف زیان کہتا ہے کہ زمل کی بھی نانو بن جائیے گا....... وہ زمل کی بھی نانو ہی تو ہیں۔

 

نگار غیب کو جان لیتی ہے اسے بھی مزید واضح کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس سے پہلے کنفیوژن تھی کہ نگار کو کیسے پتا کہ زمل کس کی بیٹی ہے ؟

 

باسل اور زمل جب گھر واپس آجاتے ہیں تو میرے خیال سے ان کا مکالمہ ہونا چاہیے تھا جس میں وہ دونوں اپنے دل صاف کر لیتے کیونکہ اس سے پہلے تو زمل نے باسل کے لوٹ آنے کا صرف خواب ہی دیکھا تھا۔

 

کچھ باتوں کا مطلب سمجھ نہیں آیا جیسے یہ :

پر شو تم ، سایہ گوتم

ساگ پیشوا ، سادھ سیوڑا 

 

یہ جملہ کچھ نامناسب سا لگتا ہے :

" خدا ابھی زندہ ہے۔ "

ابھی سے کیا مطلب ؟؟

 

ایک دو جگہ تذکیر و تانیث کی غلطی ہے۔

 

ایک شیطان صفت انسان کا انجام جو انتقام کی آگ میں اتنا جھلس چکا تھا کہ (کسی کو) " بہت زیادہ خون بہا ادا کرنا پڑا۔ "

 ایک بے قصور لڑکی کے ساتھ بھیانک ظلم " پہاڑ بے بسی بھی رکھتے ہیں۔ "

شرمندگی میں گھری ایک عورت کا سیدھا رستہ " میں یہاں آخرت میں اپنی بخشش کے لیے آئی ہوں۔ "

ضمیر سے ڈر جانے والے مرد کی توبہ " تم خدا سے التجا کرنا وہ مجھے عذاب میں نہ ڈالے۔ " 

دو معصوم دلوں کی داستانِ محبت " ایسی شطرنج صرف محبت کرنے والوں کے لیے ہوگی۔ "

 

اختتام زبردست رہا۔

 

سرمئی رنگ خود کوٹ کوٹ کر بھروایا

اگرچہ پیال کو بھی تھا سبز ہی اگایا

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ ناول قابلِ تعریف ہے اور قابلِ تحسین بھی۔