ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-06-02 19:16:13 Written by نعمان اسحاق

تبصرہ 

ناول؛ سفال گر

مصنف؛ عمر سعید

 

تبصرہ نگار؛ نعمان اسحاق

 

ہمارا بچپن نسل نو کے بچوں کے بچپن سے قدرے مختلف تھا۔دنیا اس قدر ڈیجیٹلائز نہیں تھی۔ کہانیاں سننا پڑھنا بچوں کو محبوب ہوتا۔اور میں جب اپنی یا داشتیں کھنگالتا ہوں تو ننھے نعمان کو کہانیوں کے شوق میں ڈوبا ہوا پاتا ہوں۔سکول کے زمانے سے پہلے جب پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا تو آپی کہانیاں پڑھ کر سناتی تھیں۔اور جب پڑھنے پر گرفت ہونے لگی تو ٹارزن اور عمرو عیار کی کہانیاں میرے بغل میں دبکی رہتیں۔ذرا اور بڑے ہوئے تو ڈائجسٹوں نے اپنی اور مائل کیا۔ ڈائجسٹ نگری نے پھرکچھ ایسا گھائل کیا کہ بچپن اور لڑکپن انہی کہانیوں کی خوش نما وادیوں میں گزرا۔ میں بیس سال کا تھا جن سفال گر ڈائجسٹ میں شائع ہونا شروع ہوا۔ اور اس ناول نے کچھ ایسا اسیر کیا کہ میں تیس سال کو ہونے والا ہوں اور یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ سفال گر میرا پسندیدہ ترین ناول ہے۔

 جام ساغر سے میرا جام سفال اچھا ہے۔ناول کے مصنف عمر سعید ،سفال گر کا تعارف اس مصرعے سے کرواتے تھے ۔امید قوی ہے اسی مصرعے سے ہی انہوں نے ناول کا عنوان منتخب کیا۔ سفال سے مراد مٹی ہے اور سفال گر سے مراد مٹی ساز، کمہار۔عنوان کی انفردیت اپنی جگہ قاری عنوان کے جمال سے مزید آگاہ تب ہوتا ہے جیسے جیسے وہ ناول کے ورق پلٹتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمر سعید نے عنوان کو کرداروں سے کچھ ایسے جوڑا ہے کہ دل عش عش کرتا ہے۔ احمد ابراہیم یا ایڈم گرانٹ سفال گر کا مرکزی کردار ہے۔اور میرا پسندیدہ کردار بھی۔ جسے بچپن میں فلموں نے کچھ ایسا متاثر کیا کہ وہ اداکار بننے کے خواب دیکھنے لگا۔ ایسے خواب جو نہ صرف سوتے میں بلکہ جاگتی آنکھ سے بھی دیکھتا ۔ اس کی زندگی اس خواب کی تعبیر ڈھونڈنے میں گزر گئی اسی جستجو میں پرنیاں اس کی جیون ساتھی بنی۔ مگروہ کیسے جیون ساتھی تھے جنہوں نے عمر بھر میں صرف چند لمحے ساتھ گزارے ۔ محبت کی اس کہانی میں حسد نے آنچ دکھائی ۔ اس حسد نے محبت کی روح کو جلایا تڑپایا مگر محبت پھر بھی زندہ رہی کہ محبت زندہ رہتی تھی‘رہتی ہے اور رہتی رہے گی۔

اس محبت کی راہ میں خواہش نے بھی تورکاوٹ ڈالی۔ احمد ابراہیم جو فلمی اداکار بننے کے زعم میں ایڈم گرانٹ بن گیا۔اس کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا آیا کہ اسے محبت اور خواہش میں سے ایک کو چننا پڑا۔ محبت اور خواہش کی اس کشمکش میں اس نے خواہش کو چنا۔لمحوں کی اس خطا نے صدیوں کو سزا دی۔وفائوں کے وعدے جفائوں میں بدل گئے۔سفید میمنے سی پرامن زندگی نے خونخوار بھیڑیے کا روپ ڈھال لیا۔ اس بھیڑیے نے بھوک مٹانے کے لیے ایڈم گرانٹ اور پرنیاں کو شکار کیا۔ ہائے رے زندگی۔۔۔۔۔

عمر اور صوفیہ اس کہانی کے اہم کردار ہیں۔ عمر جو گاؤں کا چپ چاپ لڑکا تھا۔جس کے خمیر میں سادگی اور سچائی تھی۔اور صوفیہ مغربی معاشرے کی پروردہ جسے دنیا اس قدر بری لگتی تھی کہ وہ اس دنیا سے بدلہ لینے کے لیے ہر حد سے گزر جانا چاہتی تھی۔ دو مختلف معاشرے میں زندگی گزارنے والے کردار جب ملتے ہیں تو مانوسیت کی ایک اور داستان رقم کرتے ہیں۔

سفال گر کا ذکر حکیم بیگم کے بغیر ادھورا ہے۔حکیم بیگم گاؤں کی سادہ سی ادھیڑ عمر عورت ‘جس نے زندگی بھر کوشش کی کہ کمہار کے چاک پر ایک خوبصورت سا سفالہ برتن تراش پائے۔عمر گزر گئی اور ایک خوش نما سفالہ وہ تراشنے میں کامیاب بھی ہوئی مگر ایک ذرا سی کوتاہی نے اس سفالے کو مٹی کے ایک بے وقعت سانچے میں ڈھال دیا۔مگر یہ کوتاہی قابل معافی تھی کیونکہ ضائع ہونے والا سفالہ تھا۔ہاں مگر جب اس نے اپنے ہاتھوں کھیل کود کر جوان ہونے والے عمر کے لب و لہجے میں کوتاہی پائی تو برداشت نہ کر پائی۔

حکیم بیگم سفال گر کی ایک انمول کردار ہے یہ صرف میری ہی نہیں ڈائجسٹوں کی مدیروں اور کئی نامی گرامی مصنفین کی رائے ہے۔ ایک کردار جو ہمیں زندگی کے حقیقی رنگوں سے آگاہ کرتا ہے ۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ امر ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ حکومت کی جائے،لوگوں کو سرنگوں کیا جائے ،فتوحات کی جائیں۔زبان کی شیرینی، کردار کی سادگی اور دل کی پاکیزگی بھی آپ کو امر کر دیتی ہے۔

سفال گر کی خوبصورتی محض اس کے کرداروں میں ہی نہیں بلکہ دلنشیں منظر نگاری‘جاندار مکالمے اور زبان وبیان کا شیریں اظہار بھی ناول کی دلکشی کو بڑھاتا ہی چلا جاتا ہے۔میں دعوے سے کہتا ہوں آپ کو کبھی اس قدر خوب صورت منظر نگاری پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہو گا۔چھوٹے چھوٹے فقروں میں چھپے بے حد خوبصورت پیغامات جو سیدھے دل میں اتر جائیں ۔ اور زبان کا کچھ ایسا خوبصورت اظہار، کئی ایسے الفاظ جن سے نا آشنا تھا مگر اب میں لکھتے ہوئے اور بولتے ہوئے روزمرہ استعمال میں لاتا ہوں ،سفال گر کی مرہون منت ہے۔

میری رائے میں سفال گر ایک داستان ہی نہیں بلکہ عہد جدید کے ناول نگاروں کے لیے اکیڈمی کا درجہ رکھتا ہے۔ اردو ادب کا قاری یا لکھاری جس نے ابھی تک اسے نہیں پڑھا میرا مشورہ ہے ترجیحی بنیادوں پر اسے پڑھے یقیناً نہ صرف آپ مطالعے کے شغف سے لطف اندوز ہوں گے بلکہ آپ پر سوچ کے کئی در وا ہوں گے۔ غلط فیصلے جو بدلے نہیں جا سکتے مگر جو زندگی بدل دیتے ہیں۔انسان جو خطائیں کرتے ہیں اور پچھتاتے رہتے ہیں ۔محبت جو ادھوری رہتی ہے جن کو مکمل کرنا نا گریز ہوتا ہے۔ایمان اور قناعت جنہیں زندگی گزارنے کے بنیادی اصول بنایا جائے تو انسان ایک پر سکون زندگی گزار سکتا ہے۔ یہ وہ چند باتیں ہیں جو سفال گر کے مطالعے سے قاری پر بہتر سے بہتر انداز میں آشکار ہوتی ہیں۔

میری جب اپنے دوستوں سے اردو اور انگریزی ادب کے موازنے سے متعلق بات ہوتی تو میں نے محسوس کیا کہ میرے کئی دوست اردو ادب کو انگریز ی ادب کے برابر یا اس سے بہتر جانتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ مگر میری رائے اس سے قطعی مختلف ہے۔ انگریزی اردو کی نسبت قدیم زبان ہے اور قدرے آسودہ حال بھی ۔ انگریزی ادب کی عمر لگ بھگ چھ صدیاں ہیں جبکہ اردو ادب نے تاحال ڈیڑھ صدی کا فاصلہ طے کیا ہے۔ انگریزی ادب معیار اور مقدار میں ہم سے کئی قدم آگے ہے۔ یہ بحث چھیڑنے کا مقصد یہ ہے اگر کبھی موقع ملا کہ کوئی اردو ناول جدید انگریزی ناولوں کو موازنے کے لیے پیش کیا جائے تو میں بے دھڑک سفال گر پیش کرنے کی تجویز دوں گا۔ بلا شبہ سفال گر بین الاقوامی معیار کا ناول ہے۔

سفال گر کے پیش نظر میں عمر سعید نے کہا ہے کہ ناول لکھتے وقت ان کی راتوں کی نیند اڑ گئی تھی ۔ اور یہ ناول پڑھتے وقت بلا مبالغہ میرے ساتھ ہوا۔ میں پرنیاں کے ساتھ انتظار کیا کرتا ۔ میں ایڈم گرانٹ کے ساتھ آنسو بہایا کرتا ۔ میں حکیم بیگم سے صبر کرنا سیکھا کرتا۔میں خواہشوں کو محبت پر فوقیت دینے پر پچھتایا کرتا ۔میں ناول کے ساتھ ساتھ کن کن مراحل سے گزرا اس صورتحال سے آپ مکمل طور پر اس وقت واقف ہوں گے جب آپ اس ناول کو پڑھیں گے۔

جذبوں سے گندھی اس داستان کے تانوں باتوں میں آپ سماجی نا ہمواریوں اور محبت کی تشنگیوں کو خوب محسوس کریں گے۔ناول کا اختتام بھی کچھ ایسا کامل ہے کہ اس سے بہتر انجام میرے خیال میں ممکن نہیں ۔ناول میں زندگی کے کئی کثیف پہلو کا بھی قدرے سلجھے ہوئے انداز میں تذکرہ ہے کہ قاری برائیوں کی وجہ پا لیتا ہے اور برائی والے سے نہیں بلکہ برائی سے نفرت سیکھتا ہے۔

جہاں تک بات آتی ہے سفال گر کی خامیوں کی تو میرے خیال میں ناول کی ایک بڑی خامی ناول پر مصنف کے اپنے نام کی بجائے قلمی نام کا موجود ہونا ہے ۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ادب کو بھی صنف میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ مردانہ کہانیاں‘ زنانہ کہانیاں معاشرتی پہلو پر لکھنے والے مردوں کے لیے تحریر چھپوانے کے انتہائی کم مواقع ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہو کہ مصنف نے قلمی نام کا سہارا لیا۔ ایک اور خامی جو خصوصاً نئے پڑھنے والوں کو الجھن میں ڈالے وہ ماضی اور حال کی کہانی ناول میں متوازی طور پر ساتھ ساتھ چلتی ہے گو کہ یہ تکنیک کافی پرانی ہے اور عہد جدید کے کئی لکھاری استعمال کرتے ہیں مگر میری ناقص رائے میں ماضی و حا ل کو متوازی لے کر چلنے کی نسبت اگر کہانی ایک ہی ٹریک پر چلے تو زیادہ دلچسپ لگتی ہے۔

آخری بات مطالعے کو اپنی اور اپنے بچوں کی عادت بنائیں اور اگر ابھی تک آپ نے سفال گر نہیں پڑھا تو آپ نے خود کو ایک شاہکار سے لطف اندوز ہونے سے محروم رکھا ہوا ہے ۔ تو دیر مت کریں اپنے چند شب و روز اور سفال گر کے سفالوں کے نام کریں۔

خیر اندیش

نعمان اسحاق