ری ویو ٹائم ان ناولز ورلڈ

2020-06-03 19:30:52 Written by بلال اسلم

اداس نسلیں

 

 

ناول: اداس نسلیں

 

مصنف: عبد اللہ حسین

 

صفحات: تقریبا 500

 

زیرِ نظر ایڈیشن: 2010 اور 2013

 

اداس نسلیں عبد اللہ حسین کا لکھا ہوا وہ شاہکار ناول ہے جو اپنی کامیابی کا لوہا یوں منواتا ہے کہ اس کا انگریزی میں باقاعدہ ترجمہ the weary generations کے نام سے کیا جاتا ہے اور تصنیف کے پچاس سال بعد بھی اس کی مانگ اس کو دوبارہ چھپوانے کا تقاضا کرتی ہے اور خوش قسمت عبد اللہ حسین جو اس وقت بقید حیات اس کے شاہد تھے، یوں گویا ہوتے ہیں

 

"۔۔۔اور اس سے اسے ۔۔۔ وہ جو کہ آخر قلم کا مزدور ہی ہوتا ہے اتنی ہی خوشی حاصل ہوتی ہے جتنی کہ کسی بھی محنت کش کو عید کے موقع پر ایک ماہ کی زائد تنخواہ کے ملنے کی ہوتی ہے۔۔۔۔"

 

اس ناول کا پلاٹ قبل از تقسیم (pre- partition) کے دور پر رکھا گیا ہے اور اس زمانے کے سماجی اور سیاسی حالات کو نہایت باریکی اور کافی حد تک کامیابی سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ بیان اتنا حقیقی ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف اس پورے دور کے بہت سارے شعبوں میں وقت گزار کر آئے ہیں اور گویا اپنی آپ بیتی بیان کر رہے ہیں۔

 

ناول کی ابتدا 1857 کے ہنگاموں کے دوران ایک نوجوان کے ایک انگریز کی جان بچانے سے ہوتی ہے جس کے صلے میں انگریز سرکار اس کو سونے میں تول دیتی ہے اور یہ عام سا نوجوان ایک رئیس نواب بن جاتا ہے جو روشن آغا کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ اس نواب گھرانے سے منسلک ایک اور کاشت کار گھرانہ ہے جس پر نواب گھرانے کی نظر عنایت ہے۔ اس دوسرے خاندان کا ایک نوجوان نعیم دراصل اس ناول کا مرکزی کردار یا ہیرو ہے جو ایک باہمت مگر متلون مزاج شخص ہے۔

 

مصنف نے جزئیہ نگاری کی بہترین مثال قائم کرتے ہوئے یہ سارا ناول لکھا ہے جس میں ان کا سب سے زیادہ کمال گاؤں کی فضا کی منظر کشی میں ظاہر ہوتا ہے۔

 

دیکھیے یہ منظر ہے جب نعیم کی اس سکھ لڑکے ٹھاکر مہندر سنگھ سے دوستی ہوتی ہے اور وہ دونوں ساتھ جا رہے ہیں

 

"سامنے وسیع اور ننگے کھیت تھے۔ بائیں طرف گاؤں کے چھوٹے چھوٹے کچے مکان تھے۔ سورج کافی اٹھ آیا تھا اور گرم چمک اور دھوپ کھیتوں میں پھیل گئی تھی۔ فصل کاٹ لی گئی تھی اور کہیں کہیں سبز گھاس کے قطعے نمودار ہو رہے تھے۔ باقی جگہ پر بھوسے کی ناڑیں اور خشک سخت جڑیں بکھری ہوئی تھیں۔ تازہ تازہ کٹائی کے بعد جگہ جگہ کبوتروں اور دوسرے پرندوں کے پرے بیٹھے چگ رہے تھے۔ درخت صرف گاؤں کے ارد گرد جوہڑ کے کنارے پر تھے۔ زیادہ تر شیشم اور آم کے گھنے پیڑ تھے جن کے سائے میں مویشی بندھے تھے اور چارپائیوں پر اکا دکا کسان سو رہے تھے۔ دور مغرب میں گھنے درختوں کی قطار تھی اور کسی کسی کھیت میں پکی ہوئی فصل کھڑی تھی" (صفحہ 50)

 

پھر الفاظ کا چناؤ، گاؤں والوں کے رہن سہن ان لوگوں کے رسم و رواج، خوشیوں، غموں، جھگڑوں، معاشقوں، دوستیوں، دشمنیوں، خوراک، لباس، عائلی زندگی، رجحانات، اور ان سب میں سر فہرست کاشت کاری اور اس سے متعلق بیائی سے کٹائی تک کی باریک باریک جزئیات کا وہ احاطہ ہے کہ اس کی مثال پریم چند جیسے شہسواروں کی تحاریر میں بھی ڈھونڈنا محال ہے۔ کہانی کے ایک موڑ پر جب نعیم کے محنتی باپ نیاز بیگ کی زمین سونا اگلنے لگی تھی اور گویا اس خاندان کا بہترین دور شروع ہو چکا تھا، نیاز بیگ کے گڑ بنانے کا کیا دلچسپ اور لذیذ بیان ہے۔ لیں آپ بھی لذت محسوس کریں۔

 

" ایک اور نوجوان تھوڑے تھوڑے وقفے پر رس نکلے ہوئے گنے کا گودا اٹھا کر سوکھنے کے لیے پھیلا دیتا اور خشک گودا آگ میں جھونک دیتا۔ تیسرا نوجوان رس کے بھرے ہوئے گھڑے اٹھا اٹھا کر کڑاہ کے پاس قطار میں رکھتا جا رہا تھا۔ نیاز بیگ کھڑا ابلتے ہوئے رس میں لکڑی ہلا رہا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ بھنڈی ترئی کی جڑوں کا رس کڑاہ میں نچوڑتا جس سے گڑ کا میل کٹ کر اوپر آ جاتا۔ لکڑی کے چمچے سے میل اتار کر وہ پھر لکڑی ہلانے لگتا۔ جوش کھاتی ہوئی رس کی میٹھی گرم خوشبو فضا میں رچی ہوئی تھی۔" (صفحہ 200)

 

اسی ضمن میں سکھ برادری، جو بہت سے گاؤوں میں مسلمان آبادیوں میں گھلی ملی رہا کرتی تھی، کی سماجی زندگی اور ان کے غیر مہذب طور طریقوں کا بھی خوب نقشہ کھینچا ہے۔ مشہور ہے کہ جب مصنف نے یہ ناول لکھا تو کرشن چندر نے نوجوان عبد اللہ حسین کو باقاعدہ تحسین کا خط لکھا۔

 

 پھر ایک موقعے پر جب یہ نعیم پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریز فوج کی جبری بھرتی کا خوش دلی سے حصہ بنتا ہے تو مصنف فوج کے نظم و نسق، سپاہیوں کی زندگی، ان کے رجحانات، ان کی نفسیات، ان کی سختیاں، بے رنگ اور بد مزہ زندگی اور اس میں گھٹتی خواہشات اور دم توڑتی ضروریات، پھر ماضی کی حسین یادیں، گھر بار، بیوی بچوں کے خیالات وغیرہ کی باریکیوں میں جاتے ہیں اور یہ سب بیان کرتے ہوئے عبد اللہ حسین نے اپنے قاری کو یہ محسوس کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ شاید خود بھی ایک عرصے جنگ عظیم کے دوران فوج کا حصہ رہے ہیں۔ فوج کے یونٹوں کی تفصیل، ہتھیاروں اور گولیوں کی تفصیلات، جنگ کے طریقہ کار، رجمنٹوں کی قسمیں، ان کے محاذ، جنگی ہولناکیوں اور خون خرابے کا گویا آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا ہے۔ جگہ جگہ اور بے یار و مددگار پڑی مسخ شدہ لاشوں کا منظر اس موقعے پر مصنف کا وہ درد مند مفکر سامنے لاتا ہے۔ مصنف نے انتہائی کامیابی سے یہ باور کروایا ہے کہ یہ اقتدار کا کھیل غریب خون کے بل بوتے پر کھیلا جاتا ہے جس کے عوض چند کوڑیاں اچھال دی جاتی ہیں۔ سسکتی ہوئی لاشوں کا ذرا یہ دل دہلانے والا یہ منظر دیکھیے

 

"ریاض چھ فٹ گہرے گڑھے میں بازو اور ٹانگیں پھیلائے لمبا لمبا چت پڑا تھا۔ اس کی زرد ہتھیلیاں آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھیں، پیٹ کھل گیا تھا اور باہر لٹکتے ہوئے انتڑیوں کے ڈھیر میں سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ نعیم نے رک کر جھانکا۔ گڑھے میں سے تازہ مٹی، بارود اور انتڑیوں کی بھاپ کی ملی جلی بو آرہی تھی۔ جاتے جاتے آخری بار مڑ کر اس نے اس کے خوفناک طور پر اینٹھے ہوئے چہرے کو دیکھا جس کی ٹھوڑی، جبڑے کی ہڈی ٹوٹ جانے کی وجہ سے اوپر اٹھ آئی تھی۔ وہاں سے بیس قدم کے فاصلے پر رحم دین پڑا تھا۔ گولی اس کی گردن میں لگی تھی اور خون بہہ بہہ کر اس گڑھے میں جمع ہو رہا تھا جو اس کے سر رگڑنے سے زمین میں بن گیا تھا۔"

 

(صفحہ 115)

 

موقع بہ موقع روشن آغا کے ہاں ہونے والی پر تکلف دعوتوں کا حال، ان کے تکلفات، افسران بالا کے تعیشات، ان کے مزاج اور نزاکتیں، متوسط طبقوں سے ملنے کا ایک متکبرانہ مگر ظاہری پر اخلاق انداز کتنا خوبصورت بیان کیا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو خاندانی روایات کا پاس رکھتے ہوئے اجڈ وڈیرے کا روپ نہیں دھارتا مگر اپنی بالا دستی قائم رکھتے ہوئے کہیں کہیں مخصوص سرمایہ دارانہ ذہنیت کا حامل بھی نظر آتا ہے چناچہ روشن آغا کے لیے بڑے اہتمام سے "موٹرانہ" وصول کیا جاتا ہے اور نہ دینے والے کو ذلیل کیا جاتا ہے۔

 

مصنف رومانویت اور اس کے مناظر سے بھی خوب انصاف کرتے ہیں۔ نعیم اور اس کے آس پاس کے لوگوں کے معاشقے، حسین یادیں، ملائم مکالمے اور دلوں کو چھونے والی جذبات سے لبریز گفتگو تلخ واقعات اور حالات کی سنگینی کے ساتھ جاری رہتی ہے۔ کہیں گاؤں کے سادے معاشقے اور دل لگیاں، کہیں محاذ پر سپاہیوں کی داستانیں اور کہیں خود نعیم کا دل دے بیٹھنا۔ اس ضمن میں نعیم کا شیلا کے ساتھ کچھ وقت گزارنا اور "لکڑی کے ہاتھ" کے لمس سے نسوانی محبت کی گرمائش محسوس کرنا کتنا لطیف اور حقیقی جذبہ ہے۔ مگر نعیم اس معاشقے کو ادھورا چھوڑ کر جب واپس آتا ہے اور روشن محل کی ایک دعوت میں شرکت کرتا ہے تو وہی عذرا جس پر ایک عرصہ قبل لڑکپن میں "پیچھے سر پھینک کر" ہنستا دیکھ کر عاشق ہو گیا تھا، اب عقد کر لیتا ہے اور یوں یہ دونوں ایک دائمی رشتے میں منسلک ہو جاتے ہیں۔

 

ناول میں مصنف کئی کرداروں کو لے کر آئے ہیں جن میں سے اکثر کا ہمارے خیال میں حق ادا کیا ہے۔ ابتدا سے انتہا تک مختلف کرداروں کو لے کر بڑھنا، عمر اور زمانے کے ساتھ ان میں تبدیلیاں لانا، ان کا عروج و زوال دکھانا اور بالآخر ان کو حوادث کے آگے لاچار دکھانا بڑا کمال ہے۔ ان میں سب سے واضح تو خود نعیم ہی ہے جو لڑکپن کی عمر سے بڑھاپے تک کہانی کا محور رہتا ہے اور اس میں کئی تبدیلیاں آتی ہیں یہاں تک کہ آخر میں دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ اس کے بعد اگر کسی کردار کی مصوری میں مصنف نے سب سے بڑھ کر صلاحیت صرف کی ہے تو وہ عذرا ہے جو ابتدائی مناظر میں ایک لا ابالی سی نواب زادی کے روپ میں سامنے آتی ہے مگر آگے چل کر یہ ایک باہمت اور وفادار لڑکی ہونے کا ثبوت دیتی ہے اور نہ صرف یہ کہ نعیم سے محبت کی خاطر اپنے خاندان کی ناراضی برداشت کرتی ہے بلکہ نعیم کی غیر مستقل اور جذباتی طبیعت سے بھی بددل نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ ہر کڑے وقت میں کھڑی رہتی ہے حتی کہ ادھیڑ عمر معذور نعیم کی دن رات خدمت کرتی رہتی ہے۔ اب اس کی اپنی عمر بھی ڈھل رہی ہے اور ایک موقعے پر یہ اپنی لٹکتی جلد کو دیکھ کر سراسیمہ بھی ہوجاتی ہے مگر اپنے شوہر کا (جو عمر گزرنے کے ساتھ بد مزاج اور خشک ہوتا جا رہا ہے) ساتھ نہیں چھوڑتی۔ حتی کہ جب نعیم اسے اچانک چھوڑ کر چلا جاتا ہے تب بھی یہ بہادر عورت اپنے آپ کو ٹوٹ کر بکھرنے سے بچائے رکھتی ہے۔ یہ اس کے کردار کی خوب صورتی ہی ہے جو اسے نعیم سے زیادہ قابل تقلید کردار بناتی ہے اور نعیم زندگی کے آخری لمحات میں اعتراف کرتا ہے

 

"اس سے قطع نظر۔۔۔۔۔ سنو۔ ایک بات اور بتاتا ہوں۔ عذرا میری بیوی ایک عظیم عورت ہے۔ اس کے پاس کوئی اندیشہ، کوئی الجھن، کوئی ریا کاری نہیں۔ وہ جو کچھ چاہتی ہے بلا جھجک اس کے لیے تباہ ہو جاتی ہے۔ وہ انسان کی ساری شرافت، سارے کرب اور ساری قربانی کے ساتھ خاموشی اور رضامندی سے زندہ ہے۔ خدا انسان کو اپنی شبیہہ میں بناتا ہے نا۔ وہ عذرا ہے۔ اب اس کا ذکر نہ کرنا۔" (صفحہ 485)

 

نعیم کے سکھ دوست کا کردار بھی خوب نبھایا گیا ہے۔ لڑکپن کا وہ آوارہ مزاج، دلیر، زندہ دل اور خود سر قسم کا سکھ، فوج میں اپنی موت سے کچھ دنوں قبل کس حالت کو پہنچ چکا ہے

 

"اچانک ہجوم کے اوپر نعیم کو ایک بھاری مانوس جسم دکھلائی دیا۔ وہ جلدی سے آگے بڑھا۔ وہ جسم ایک سکھ سپاہی کا تھا جو کندھے ڈھلکائے جھولتا ہوا پٹڑی پر چلا جا رہا تھا۔ اس کی وردی میلی اور شکن آلود تھی اور سپاہی کے بجائے وہ جیل سے بھاگا ہوا قیدی معلوم ہوتا تھا۔ چند قدم اس کے پیچھے پیچھے چلنے کے بعد نعیم نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ سکھ سپاہی نے پلٹ کر دیکھا۔ چند سیکنڈ تک وہ اپنی سوئی سوئی، بے حس آنکھوں سے نعیم کو تکتا رہا، پھر کسان فوجیوں کے مخصوص انداز میں بولا: نعیم۔۔۔۔ تم ابھی زندہ ہو؟" (صفحہ 120)

 

ان کرداروں کے علاوہ عذرا کی بہن نجمی کا کردار ہے جو ایک آئیڈیلسٹ مزاج کی فلسفی قسم کی لڑکی ہے۔ یہ حالات کا گرداب دیکھتی ہے اور آخر اپنی خیالی جنت سے نکل کر حقیقت کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔

 

 یہ علی ہے جو نعیم کا سوتیلا بھائی ہے، جسے کبھی نعیم نے اپنی گود میں اٹھایا تھا آج وہ لڑکپن کے جوش میں اس کو آنکھیں دکھاتا ہے۔ پھر نوجوانی میں فیکٹری کی ملازمت اور اس زندگی کی یکسانیت اور بےرنگی کو جھیلتا ہے اور ناول کے اختتام کے قریب ہجرت کی صعوبتوں کا شکار ہو کر ایک بے بس سا انتہائی سنجیدہ سا شخص نظر آتا ہے۔

 

مصنف ایک کامیاب ناول نگار ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے گہرے فلسفوں اور نظریات کو اپنے پلاٹ میں سمونے میں بھی کافی حد تک کامیاب ہیں۔ عالمِ داخلی (نفسیات) کا مطالعہ تو ویسے ہی بے مثال ہے، عالمِ خارجی (معاشرہ اور اس کے عناصر) پر بھی گہری نظر اور سوچ رکھتے ہیں۔ کہیں نواب گھرانے کے لڑکوں لڑکیوں میں جدید مباحث کا منظر پیش کرتے ہیں تو کہیں حکومتوں اور سیٹھوں کے ہاتھوں پستے سادہ دماغوں کے تخیلات کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ کہیں اشرافیہ کے خیالات اور خلجانات کی عکاسی کرتے ہیں تو کہیں مزدور طبقے کی بے بسیوں اور مایوسیوں کا ان ہی کے انداز میں ذکر کرتے ہیں۔ پھر مذہب، سیاسی تحریکوں، اور تاریخ کے مسائل پر بھی خامہ فرسائی کرتے ہیں اگرچہ موخر الذکر میدانوں میں ان کا ادراک اور مطالعہ ایسا وسیع معلوم نہیں ہوتا۔

 

ان سب خصوصیات کے باوجود یہ ماننا بہرحال ناگزیر ہے کہ یہ ناول کئی پہلوؤں سے کمزور ہے اور اگچہ ناقدین کے تمام منفی نشتر بجا نہ بھی ہوں تاہم اکثر بہت وقیع ہیں۔

 

مثلا مصنف پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے زبان دانی میں مہارت حاصل نہیں کی۔ یہ بات کافی حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔ اگرچہ بیانیہ مغلق نہیں ہے مگر اتنا رواں اور جاذب بھی نہیں ہے، نہ ہی محاورے کے مطابق ہے مثلا یہ دیکھیے نعیم کا باپ ایک موقعے پر اپنی بیویوں کو ڈانٹتے ہوئے کہتا ہے

 

"دونوں کو کتے خرید دوں گا، دونوں کو گدھے خرید دوں گا، دونوں کو سؤر خرید دوں گا۔ پھر ٹھیک ہے؟" (صفحہ 49)

 

اکثر جملے طویل اور روز مرہ سے ہٹ کر ہیں جو کہ متکلم کے طبقے کے مناسب معلوم نہیں ہوتے۔ تاہم یہ عیب ہر جگہ نہیں ہے۔ کیوںکہ کچھ جگہ گاؤں والوں کی جو بولی اور انداز ہے وہ رئیسوں اور نوابوں سے یکسر الگ ہے۔ اسی قسم کی کامیاب کوشش میں وہ "گالیوں کی بہار" آتی ہے جو ایک "ناقدہ" کو بہت کھل رہی ہے۔ حالانکہ گالیوں سے لدی زبان عوامی مزاج کی صحیح ترجمانی ہے۔ ایک مسئلہ پنجابی الفاظ کا استعمال بھی ہے مگر ہر سمجھ دار قاریۣ جانتا ہے کہ یہ کوئی عیب نہیں ہے اور پنجاب کے بے شمار ادیبوں کے ہاں اس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں حتی کہ علامہ اقبالؒ نے تو اس طرز کا دفاع کیا ہے۔

 

پھر جس طرح اس ناول کا سب سے بڑا کمال جزئیہ نگاری ہے اسی طرح شاید سب سے بڑا نقص بھی حد سے زیادہ جزئیہ نگاری اور دقیق رسی ہے۔ کاشت کاری کو ہی لے لیجیے۔ مصنف چند جزئیات بیان کر کے تسلی محسوس نہیں کرتے اور بڑھتے چلے جاتے ہیں حتی کہ اچھا خاصا ناول کاشت کاری کی درسی کتاب بن جاتا ہے۔ لطف تو یہ کہ ناول کے ابتدائی حصے میں اس پر کافی زور صرف کرنے کے بوجود مصنف کی تشفی نہیں ہوتی تو آخری مراحل میں نعیم بیچارہ جو سنکی بھی ہو چکا ہے، کی زبانی کاشت کاری کا مزید درس دیتے نظر آتے ہیں۔

 

اسی طرح طوالت کا الزام بھی بجا ہے۔ اگرچہ ایک کامیاب ناول ضخیم ضرور ہوتا ہے مگر زبر دستی ضخیم بنانے سے بہتر تو افسانہ لکھنا ہے۔ عبد اللہ حسین منظر پر منظر لاتے چلے جاتے ہیں اور ان میں اپنے کمال جزئیہ نگاری سے رنگ بھرتے چلے جاتے ہیں۔ معلوم نہیں ہوتا کہ اس منظر کا پلاٹ سے کیا تعلق ہے۔ یا کچھ ایسا ہے کہ مصنف جب روزانہ وقت فارغ کر کے بیٹھتے ہیں تو نیا کینوس لے کر نئی مصوری شروع کردیتے ہیں جس کا پچھلی تصویر سے کوئی خاص ربط تو کجا تعلق بھی نہیں ہوتا۔ اس کی بہترین مثال جلیانوالہ باغ میں ایک بڈھے مچھیرے کی آپ بیتی ہے جو خام خواہ کئی صفحے پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس قسم کے اضافے ایسے ہیں کہ اگر نادانستہ کوئی ان کو چھوڑ کر آگے بڑھ جائے تو کہانی میں کوئی کمی محسوس نہ ہو بلکہ اگر دانستہ چھوڑ ہی دے تو اچھا ہے۔

 

ناول کے آخری حصوں میں فلسفیانہ خیالات کو بھی حد سے زیادہ جگہ دی گئی ہے۔ اس خدمت کے لیے انیس نامی ایک افسر کو چنا گیا ہے جو بے تکے انداز میں کہانی میں کودتا ہے اور فلسفوں کے انبار لگا دیتا ہے۔ اس موقعے پر ہم عبد اللہ حسین کی فلسفہ شناسی اور عمیق نظری کے قائل تو ضرور ہوتے ہیں مگر یہ سلسلہ بھی کار جہاں کی طرح دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔ مذہب کی بحث بھی آجاتی ہے۔ کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نعیم مصنف خود ہیں جو ایک زاویے پر قانع نہیں رہ سکتے۔ پہلے ایک موقعے پر ایک ڈاکٹر کے مکالمے سے مصنف مذہب پسند نظر آتے ہیں اور انیس کے فلسفوں میں شدید بیزار۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ حسب عادت مصنف اس کینوس کو بھی چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور انیس اور نعیم کی کئی برس کی دوستی اچانک ختم کر دی جاتی ہے۔

 

رومانوی عنصر خوب ہے مگر کہیں کہیں یہ بے ڈھنگے انداز میں عریاں نگاری تک چلا جاتا ہے۔ اس کی مثال ایک موقعے پر نعیم کا اپنی بیوی عذرا کو غصے سے دیکھنا اور اس کو شہوت کی ماری ایک بے حیثیت عورت سمجھنے والا واقعہ ہے جس میں مصنف نے جوان نسوانی جسمانی خدو خال کا نقشہ کھینچا ہے۔ اسی طرح نجمی کا عمر ڈھلنے پر اپنے آپ کو برہنہ کر کے دیکھنا اور مصنف کا جسم کی ساخت کی بیہودہ انداز میں تصویر کشی کرنا بالکل بے مقصد سی کاوش ہے۔

 

دیگر بہت سے مصنفین کی طرح عبد اللہ بھی مس حیدر کے "آگ کا دریا" اور دیگر نگارشات سے متاثر بلکہ کسی حد تک نقال ہیں۔ یہ بات پے در پے مایوسیوں، نواب گھرانے کی تصویر کشی، تحریکوں میں شکست جیسے عناصر کی عکاسی میں صحیح معلوم ہوتی ہے۔ لہذا کہنے والے کہتے ہیں کہ "آگ کا دریا" کے بعد بجائے اس کے کہ اردو ناول نگاری مزید ترقی کرتی، نقالی کا شکار ہو کر تنزل کی طرف آنا شروع ہو گئی۔

 

ناول کی تین حصوں میں تقسیم بھی بے فائدہ محسوس ہوتی ہے۔ آخر کا حصہ "بٹوارہ" تو منفرد ہی ہے۔ اول تو آیت مبارکہ کا غلط ترجمہ کیا ہے۔ اگر کہیں دیکھ لیتے تو بہتر ہوتا۔ ایک معمولی عربی فہم رکھنے والا شخص بھی جان سکتا ہے کہ "مصلحون" اصلاح سے ہے نہ کہ ایمان سے تو "ہم ایمان والوں میں سے ہیں" کی کیا تک؟ پھر یہ کہ یہاں پہنچ کر مصنف کو لگتا ہے کہ ناول بہت کھنچ گیا تو اس کی بساط لپیٹنی شروع کرتے ہیں جس میں بساط پر دھری بہت سی اہم اشیا زیر و زبر ہوجاتی ہیں۔ جلدی جلدی بہت سی چیزیں آتی اور جاتی ہیں۔ جاتے جاتے نعیم نجمی پر بھی ڈورے ڈالتا ہے پھر اگلے منظر میں اس کو اپنی بیٹی قرار دے کر مرنے سے پہلے نیک ہو جاتا ہے۔ ہجرت کے واقعے میں بھی تفصیل درکار تھی اور اگر مصنف اس حصے میں عجلت کا مظاہرہ نہ کرتے اور کامیاب جزئیہ نگاری کے چند نمونے اور پیش کر دیتے تو اس موقعے کا بہترین منظر کھینچنے والوں میں شمار ہو جاتے مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ آخر میں نعیم بھی مارا جاتا ہے، روشن محل کے باسی بھی تتر بتر ہوجاتے ہیں، خود نواب صاحب مر جاتے ہیں اور اختتام نعیم کے سوتیلے بھائی علی کی بے بسی پھر نئی عائلی زندگی کی ابتدا سے ہوتا ہے۔ اس اختتامیے میں بھی اختتام اور انجام والی کوئی بات نہیں تاہم کیونکہ حقیقی ناول کا اختتام حقیقت کے مطابق ہی ہونا چاہیے تو شاید یہ کوئی ایسی خامی نہیں۔

 

ان سب باتوں کا ہونا اپنی جگہ مگر یہ ضرور ہے کہ ہر منظر ہر کردار ہر باب میں ایک کرب ایک یاس ایک ناکامی اور حسرت کی جو حقیقی فضا مصنف نے قائم کر دی ہے اس سے یہ ناول اردو کے چند کامیاب ناولوں میں شمار ہونے کے لائق ہو گیا ہے۔ اور ناول کا اگرچہ کوئی مضبوط پلاٹ اور کہانی نہ بھی ہو ایک عمومی تاثر اور اثر غم انگیزی اور اداسی ہے۔ وہ اداسی جو بنی نوع انسان پر ابتدا سے مسلط ہے اور ہر نسل اس کا شکار ہو کر ہی رہتی ہے چاہے کچھ وقتی سرور اور راحت مل بھی جائے۔ بس یہی اس طویل ناول کا مرکزی خیال ہے اور یہی اس کا نام ہے اور اسی کو مصنف کامیابی سے نبھا کر کامیاب اور فتح یاب ہیں۔