خدا اور محبت
’’خدااورمحبت‘‘ کا موضوع جہاں بہت سے لوگوں کے مطابق متصادم ہے وہیں ایک بڑا گروہ اسے مشروط بھی قرار دیتے ہیں ۔ ایک گروہ مذہب کی بنیاد ہی محبت کو قرار دیتا ہے تو دوسری طرف ایک گروہ مذہب میں ایسی محبت کی ممانعت پہ سر حاصل گفتگو دلائل کے ساتھ کرتا دکھائی دیتا ہے جو ہمارے ہاں افسانوی ناولز میں زیر بحث لائی جاتی ہے ۔ہر کسی کا اپنا نظریہ ہے جو قابل ِ محتر م ہے ۔
’’ خدا اور محبت ‘‘ ہاشم ندیم کے جرات مندانہ قلم سے نکلا وہ ناول ہے جواردو ادب میں منفرد مقام رکھتا ہے ۔یہ عشقِ مجازی سے حقیقی کی داستان حیات ہے ۔اپنی ذات میں یہ ایک سفر ہے ، ایک جہاں ہے ، محبت فاتح عالم کا ۔
ہاشم ندیم کے قریبا ً سبھی ناول ایک آپ بیتی کی صورت میں لکھے ہوئے ہیں۔سہل اور رواں اردو انکا خاصا ہے ۔ منظر نگاری میں انکو ملکا حاصل ہے ۔ کیا خوب کردار نگاری کرتے ہیںکہ پڑھنے والا اس ناول کو ایسے محسوس کرتا ہے جیسے اسکی نظروں کے سامنے سب کردار چل پھر رہے ہوں ۔ ہاشم ندیم کے ناول کی سب سے خاص بات اس میں کہانی کو چلانے کے ساتھ ساتھ ہر پیراگراف میں زندگی کا سادہ مگر گہرا فلسفہ بیان کرنا ہے ۔مصنف کا یہ اندازِ تحریر جہاں بہت سے لوگوں کو ساحر بناتا ہے وہیں مجھ جیسے کچھ پڑھنے والے کہانی کی روانی میں ایسا فلسفہ پسند نہیں کرتے کہ اس سے کہانی کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے ۔
ایک دوسری بات جو اس ناول کے اعتبار سے قابل ِ اعتراض رہی وہ ہے حما د جیسے کردار کی شستہ اوررواں اردو بولنا جوعام زندگی میں دیکھنے کو نہیں ملتی کہ ایک نوجوان اپر کلاس سے تعلق رکھتا ہو، باہر سے تعلیم حاصل کر کے آیا ہو وہ اردو زبان پہ ایسا عبور رکھتا ہو۔
ناول کی کہانی کی تفصیل میںجانے سے پہلے یہ بتاتی چلوں کہ کہانی حال میں کھولی جاتی ہے جو کہ لندن شہرہے اور پھر کہانی کا مرکزی کردار اپنی گزشتہ زندگی کو یاد کرتا کہانی کودو سال قبل ماضی میںلیجاتا ہے ۔ اس طرح کہانی ایک باب حال میںاور ایک ماضی میں طے کرتے آگے بڑھائی گئی ہے ۔مصنف کے اس طرزِ تحریر سے میری طرح بہت سے پڑھنے والے بھی کچھ عاجز دکھائی دیتے ہیں کہ اس سے پڑھنے کی روانی متاثر ہوتی ہے ۔ ماضی کی کہانی جہاں بہت مربوط ہے وہیں اسکے مقابل حال کی کہانی کچھ بوریت کا شکاربھی دکھائی دیتی ہے ۔ حتی ٰ کہ بہت سے پڑھنے والوں نے لندن کی کہانی پہ مشتمل ابواب کو چھوڑ کر پاکستان کی کہانی پہ مشتمل ابواب کو پہلے پڑھنا ضروری سمجھا ۔
’’ خدا اور محبت ‘‘ کی کہانی ناول کا مرکزی کردار حماد امجد رضا آپ بیتی کی صورت بیان کرتا ہے جو ’’ محبت کی تکون ‘‘ پہ مشتمل ہے۔کہانی بھلے ایک امیر زادے کی ایک غریب لڑکی سے محبت ہے لیکن مصنف نے جس خوبی اور جن حالات و واقعات سے اسے بیا ن کیا وہ پڑھنے والے کو اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ سبھی کردار ہماری زندگی کا ایک حصہ ہیں ۔
حماد ایک متمول خاندان کا بیٹا ہے جسے اپنے بھتیجے کو قرآن پاک پڑھانے والے مولوی علیم الدین کی بیٹی ایمان سے پہلی نظر میں محبت ہو جاتی ہے ۔پھر اسی محبت کا برملا اظہار اسے گھر بدر کرتا اور مولوی صاحب کی نظروں میں بھی گناہگار ٹہراتا ہے ۔ اپنی شناخت پانے کیلئے وہ ریلوے اسٹیشن کا ایک قلی بن جاتا ہے اور مذہب کو بھی جی جان سے اپناتا ہے ۔لیکن اس کاکوئی عمل بھی اسے مولوی صاحب کی نظروں میں سرخرو نہیں کر پاتا ۔
کہانی کا دوسرا مرکزی کردار مولوی صاحب کی بیٹی ایمان ہے جو ان بیٹیوں میں شمار کی جاتی ہے جس کا اوڑھنا بچھونا ہی ماں باپ کی عزت ہوتی ہے ۔ ماں باپ کی مرضی کے خلاف دل میںپیدا ہو جانے والی محبت کو وہ گناہ ہی تصور کرتی ہیں اور کبھی اسکا اظہار نہیں کر تیں ۔ اظہار کر دیں تو اسی اظہار کی سزا کو اپنی جان کا تاوان دے کرکاٹتی ہیں ۔ایمان بھی حماد کے اظہارِ محبت پہ پہلے پہل برہم ہوتی اور پھر موم کی طرح نرم ہو جاتی ہے ۔لیکن وہ اپنے باپ کی عزت کو محبت پہ مقدم جانتی ہے ۔ جب مولوی صاحب کسی طور حماد کے رشتے کیلئے مان کر نہیں دیتے اور ایمان کا رشتہ اپنے ہی بھتیجے عبداللہ سے طے کر دیتے ہیں تو ایمان اسی محبت کے ناسور کو دل میں بسائے جان سے چلی جاتی ہے ۔
بیٹی کی وفات کے بعد وہی باپ حماد کی محبت کو دل سے تسلیم کرتا ہے جو پڑھنے والے کو آگ کی طرح لپیٹ لیتا ہے کہ اب کیوں ۔؟ یہی قبولیت ایمان کی زندگی میں ہوتی تو وہ زندہ رہتی ۔۔۔ اور بہت سے پڑھنے والے یہ کہتے پائے جاتے ہیںکہ محبت کو ایسا روگ کون بناتا ہے کہ جان سے چلا جائے ۔۔۔؟حقیقی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا ۔
یہیں کہانی ایک نیاموڑ مڑتی ہے جو پچھلی کہانی سے قدرے مختلف ہے ۔
ایمان کی وفات کے بعد ، ماضی سے پیچھا چھڑانے حماد لندن کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے چلاآتا ہے جہاں اسے یہودیوں کے مذہبی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہیں محبت کی اس تکون کو مکمل کرنے ایک یہودی لڑکی سارہ کا مرکزی کردار ابھرتا ہے ۔یہاں مذہب اور محبت کی جنگ جیسے صلح و آتشی کا لبادہ پہنتی ہے اور محبت فاتح عالم کا علمبردار بلند کرتی ہے ۔
یہودیوں کے مذہبی نظریے ’’ہولوکاسٹ ‘‘ کو مصنف نے ناول میں جس خو بصورتی اور دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے وہ قابل ِ تحسین ہے ۔اس موضوع پہ انکی تحقیق پڑھنے والے کو سچ کی نئی راہ دکھاتی ہے جو یقینا مصنف کی ایک بڑی کامیابی ہے ۔بلاشبہ یہ ناول ادب کی دنیا میں ہاشم ندیم کی طرف سے دیا گیا ایک تحفہ ہے جو حقیقتا ً پڑھنے جانے کے قابل ہے ۔
دعا ملک