السلام علیکم،
سدرہ مغل،واہ کینٹ
میں محترمہ سمیرا حمید صاحبہ کے ناول "یارم" پر تبصرہ لے کر حاضر ہوں. سب سے پہلے بتاتی چلوں کہ یہ میری پہلی کاوش ہے، جیتنا ہارنا بہت دور کی بات ہے، میں سیکھنے کے دور میں ہوں ابھی. پڑھنے والوں اور ججز کی جانب سے اصلاح اور رہنمائی کی منتظر ہوں.
تو اب آتے ہیں تبصرے کی جانب، یارم ایسا ناول ہے جس کو میں نے بارہا آنلائن بھی پڑھا، سافٹ کاپی فارم میں بھی ڈاؤنلوڈ کر کے متعدد بار پڑھا اور پھر بھی دل نہیں بھرا تو میں نے ہارڈ فارم یعنی کتابی شکل میں اسے خرید لیا، اور اتنی دلچسپی کی وجہ ہیں اس ناول کے کردار اور رائٹر کی باکمال منظر نگاری.
یارم ناول میں مشرق کی سندری امرحہ ہے، جو مشرقی قریب قریب تمام لڑکیوں کی نمائندہ ہے. یارم میں عرب اور مغرب کی خوبصورتیاں سمیٹے ہوئے ایک شہزادہ عالیان ہے، ہمارا عالیان، ہماری امرحہ کا عالیان.
اور یارم نام ہے ان مشرق و مغرب کے کرداروں کی حسین محبت کی داستان کا. سمیرا صاحبہ نے اتنے خوبصورت اور ہلکے پھلکے مگر دل کو چھو لینے والے انداز میں ہمارے معاشرے اور ہماری روایات کو بیان کیا ہے کہ پڑھنے والے دل ہی دل میں اس سچائی کے معترف ہو جاتے ہیں.
یارم میں دادا ہیں،پیارے دادا، جو ہماری امرحہ کی سہیلی ہیں، اس کے دکھ درد کے ساتھی. لیکن درمیان میں ہمیں معلوم پڑتا ہے کہ دادا بے شک علم رکھنے والے انسان ہیں مگر درحقیقت وہ اپنی روایات اور اقدار سے جڑے ہوئے ہیں اور انہیں امرحہ کی خودمختاری اور آزادی سے خاصہ ڈر لاحق ہے کہ بہرحال وہ بھی مشرق کا حصہ ہیں اور انہیں انسان کی پہچان کے لیے نام نسب کی ضرورت ہے، گو کہ آخر میں وہی ہوتے ہیں جو امرحہ کے لیے گھر والوں سے لڑتے ہیں کیونکہ کھوکھلی روایات اور اقدار پر پوتی کی محبت غالب آجاتی ہے.
اور یارم میں لیڈی مہر ہیں، ہمارے عالیان کی ماما مہر،جن کے لیے ان کا سب کچھ ان کے گود لیے ہوئے بچے ہیں اور ان کا مقصد ان بچوں کو عزت والی اور کامیاب زندگی دینا ہوتا ہے اور وہ اپنی معذوری کے باوجود یہ کر دکھاتی بھی ہیں، جس کا منہ بولتا ثبوت انکے بچوں کی کامیاب زندگیاں اور اپنی ماما مہر سے بے مثال محبت ہے، اور انہیں اپنے بچوں سے بے حد محبت ہے اس بات سے بالاتر کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں. لیڈی مہر نے انہیں مذہب بدلنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ ان پر یہ فیصلہ چھوڑا کہ وہ جو چاہیں مذہب اختیار کریں.
اور یارم میں ہے شٹل کاک، لیڈی مہر کی جنت، جہاں امرحہ، سادھنا، ویرا اور این اون کرائےدار کے طور پر رہتی ہیں.
سادھنا ہندوستانی لڑکی ہے اور عزم و ہمت اور بلند حوصلے کی مثال ہے جس کا معصوم بیٹا کینسر کے مرض میں مبتلا ہے اور علاج کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے. شوہر کو ویزہ نہیں ملتا مگر سادھنا کو ویزہ مل جاتا ہے اور یوں وہ اپنے بیٹے سے سات سمندر دور رہ کر اس کے علاج کی رقم جمع کرتی ہے.
ویرا، روسی ٹائیگر، اتنی پھرتیلی اور ہر فن مولا قسم کی لڑکی جس کی زبان پر مشکل ہی سے "نہ" آتا ہے. درحقیقت یہ کردار تھوڑا غیر حقیقی لگا مجھے، ہاں مگر اندر سے ویرا بھی عام لڑکیوں جیسی ہی ہے جس کا دل محبت میں گندھا ہوا ہے اور وہ بھی لطیف جذبات محسوس کرتی ہے. لیکن اس کے والد کی دی ہوئی تربیت نہایت سبق آموز ہے. وہ اپنے دل کا ٹوٹنا تو برداشت کرسکتی ہے مگر کسی دوسرے کا حق نہیں مار سکتی اور اتنے ظرف والا ہر کوئی نہیں ہو سکتا، ہماری امرحہ بھی نہیں تھی تبھی تو اس کے بارے میں بدگمان ہوگئی.
دائم اور نوال، جنہوں نے امرحہ کو "اپنے آپ پر بھروسہ کرنا اور آگے بڑھنا بغیر کسی سہارے کے" سکھایا.
سائی، اتنا بےضرر کردار. ہر کسی کو ہر وقت سننے کے لیے میسر، اور سب اس سے اپنے راز ہر وقت بانٹنے کو تیار رہتے، اتنا بوجھ دماغ پر لے کر کیسے رہتے؟؟ اس لیے وہ سب اپنے اپنے بوجھ بےچارے سائی کے ہمدرد دل و دماغ پر ڈال دیتے، اور سائی کا اصول بہت اچھا تھا کہ جو راز اسے بتا دیا اب مرتا مر جائے گا مگر راز نہیں اگلے گا, امرحہ اور عالیان کا بہترین دوست.
اور پھر آتے ہیں اس ناول کی رونق کی طرف، کارل، دی منحوس مارا. ہاہاہا
اس ناول کا سب سے مزیدار کردار، جو ہر وقت کسی نہ کسی کی ناک میں دم کیے رکھتا ہے اور اس کی ان حرکتوں سے کوئی نہیں بچ سکتا، پورے ناول میں کارل ہی تھا جس نے پڑھنے والوں کی توجہ بھٹکنے نہیں دی(میرے خیال میں). کارل کا مزاح اور شیطانیاں اور "ٹویٹ" کی روایت، مختلف خطوں کے لوگوں کے ذریعے سمیرا صاحبہ نے ہمیں مختلف تہذیبوں سے روشناس کروایا.
کرداروں کے علاوہ منظر نگاری نے مجھے خاص طور پر ذہنی طور پہ وہاں پہنچا دیا جہاں جہاں کردار موجود تھے، مثال کے طور پر جب امرحہ مانچسٹر کی یونیورسٹی میں گھومتی ہے تو پڑھنے والے کو لگتا ہے جیسے وہ بھی وہیں کہیں ہے آس پاس، اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے. اور جب وہ عالیان کے جانے کے بعد یونیورسٹی کی محراب سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوتی ہے تو لگتا ہے برف ہم پر بھی گر رہی ہے.پریڈ کا منظر ہو یا مورگن شارلٹ کی شادیاں، پرینکس کے نت نئے انداز ہوں یا سائیکل ریس، پال سے جھگڑا ہو یا عالیان کا اپنے باپ ولید البشر سے سامنا، برازیلا میں فٹبال کا فائنل ہو یا سٹیڈیم میں جھڑپ، امرحہ کا زخمی ہو کر گرنا ہو یا عالیان کا ہسپتال میں اس کے لیے نڈھال ہونا، دادا کا امرحہ کے لیے بےچین ہونا اور تڑپنا اور بالآخر اس کا ساتھ دینا خاندان والوں کی ناراضگی مول لے کر، ایک ایک منظر ایک ایک کردار دل پر اثر کرنے والا.
اور سب سے اچھی بات کہ یارم ایک موٹیویشنل ناول ہے، مذاہب کا احترام کرنے کا بھی بہت اچھا میسج دیا گیا. لب لباب یہ کہ یارم ناول کا مقصد جو میری سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ ہمارے لیے اہم انسان کا اخلاق ہونا چاہیے، خامیوں کی پردہ پوشی کرنا سیکھنا چاہیے.