اعتزاز حسن شہید

2019-05-05 21:20:07 Written by اعتزاز سلیم وصلی

علاقے کا واحد ہائی اسکول تھا یہ۔اس لئے کافی بڑا تھا۔یہاں تقریباً دو ہزار طالب علم ،علم کی طلب میں ہر روزجمع ہوتے تھے۔یہ وہ بچے تھے جو ان علاقوں سے اٹھ کر آتے جہاں کے لوگ اپنے آنے والے ایک ایک منٹ کے بارے میں بے خبر تھے کہ کب دہشتگردوں کے ہاتھ لگ جائیں ۔۔کب مارے جائیں۔ایسے میں تعلیم کیلئے گھر سے نکلنا واقعی بہادری کا کام تھا۔ابراہیم زئی ہائی اسکول کے پرنسپل آفس میں ایک طرف فریم میں قائد اعظم کی تصویر لگی ہوئی تھی۔میز پر کافی ساری فائلز پڑی تھیں۔ایک سائیڈ پرپڑی الماری میں اوپرسے لے کر نیچے تک پورے اسکول کے اسٹوڈنٹس کے کچھ دن پہلے ہونے والے دسمبر ٹیسٹ پڑے تھے۔انہی دسمبر ٹیسٹ میں نویں جماعت کے پیپر بھی تھے۔۔ان سب پر نمبر لگ چکے تھے۔ہر طالب علم کے رول نمبر اور نام کے ساتھ حاصل کردہ نمبر لکھے ہوئے تھے۔انہی میں ایک ٹیسٹ،اس کا بھی تھا۔وہ ان اسٹوڈنٹس میں شامل تھا جو بس پاس ہوتے تھے۔نہ کبھی پوزیشن لینے کا سوچا اور نہ ہی کبھی فیل ہونے کا خوف محسوس کیا۔۔اکثر تعلیمی اداروں کے پرنسپل آفس کی طرح،وہ آفس بھی تھا مگر اس کمرے میں ایک تبدیلی آنے والی تھی ۔۔بہت جلد 
                              ٭٭٭ 
چھوٹی سی پہاڑی پر بیٹھے تھے وہ تینوں۔سامنے ان کے ہائی اسکول کی بلڈنگ تھی جہاں وہ سب پڑھتے تھے۔خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگومیں کافی بڑا اسکول تھا۔پانچ جنوری ،بدھ کی شام تھی۔سورج تیزی سے اپنی منزل کی جانب سفرکررہا تھا۔سردی بڑھ رہی تھی مگر وہ سب لڑکے باتوں میں مصروف تھے۔ان کی باتوں کا موضوع مسلسل تبدیل ہورہا تھا۔ایسے میں باتوں کا رخ موجودہ حالات کی طرف ہو گیا۔ایک بولا۔
’’یار یہ بم کیسے بناتے ہیں؟‘‘دوسرے نے جواب دیا۔
’’پتا نہیں پر سنا ہے چھوٹا سے ہوتا ہے اور تباہی مچا دیتا ہے۔‘‘
’’ہمارے گاؤں پر بھی تو روز حملے ہوتے ہیں کیا ایک بم سے سارا گاؤں اڑ جائے گا؟‘‘پہلے کے لہجے میں معصومیت تھی۔
’’ہاں شاید ایسا ہوپر یہاں بم نہیں استعمال کرتے ۔گولیاں مارتے ہیں ایسے کرکے۔۔‘‘اس نے انگلیوں سے اشارہ کیا۔تیسرا جو کافی دیر سے خاموش بیٹھا تھا اچانک بول پڑا۔
’’بم جتنا مرضی چھوٹا بڑا کیوں نہ ہو۔۔آدمی سے زیادہ طاقتور نہیں ہوتا‘‘باقی دونوں ہنس پڑے۔
’’آدمی کی جان تو لے لیتا ہے ناں ؟پھر طاقتور کون، بم یا آدمی؟‘‘
’’آدمی۔‘‘اس نے مختصر جواب دیا۔پندرہ سال کی عمر کا وہ لڑکا قد میں اپنی عمر کے حساب سے لمبا اور مضبوط جسامت کا تھا۔اس کا چہرہ قریب موجود چٹانوں کی طرح ہی سخت تھا۔وہ خالص پہاڑی نقوش کا مالک تھا۔
’’اس سے بحث نہ کر۔اسے ویسے بھی کسی دن دہشت گردوں نے مار دینا ہے۔‘‘پہلے نے دوسرے کی طرف دیکھا۔
’’کیوں؟‘‘
’’یہ پورے گاؤں میں تو ان کے خلاف بولتا پھرتا ہے۔‘‘
’’ہاں کیونکہ وہ مذہب کے نام پرہم بے قصور لوگوں کو مار جاتے ہیں۔میں تو ضرور بولوں گا۔‘‘وہ اپنے مخصوص انداز میں بولا۔یہ سچ تھا کہ جب روز اس گاؤں پر حملے ہوتے تھے تب کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ آواز بلند کر سکتا پھر بھی اعتزاز حسن ضرور بولتا تھا۔بڑھ چڑھ کر ان کے خلاف ہر جگہ بولتا۔اسے آرمی میں جانے کا بہت شوق تھا۔وہ ان دہشت گردوں کے خلاف لڑنا چاہتا تھا جنہوں نے ہر جگہ خوف پھیلا رکھا تھا۔وہ سامنے نظر آنے والے ابراہیم زئی اسکول کا طالب علم تھا۔نویں جماعت میں پڑھنے والا اعتزاز حسن بنگش پڑھائی میں کچھ خاص اچھا نہ تھا مگر پورے اسکول میں اپنی ہمدرد طبیعت کی وجہ سے مشہور تھا۔۔اور شاید اسی شہرت کی وجہ سے قدرت نے اسے چن لیا تھا۔کسی خاص کام کیلئے جو آنے والے کئی نسلوں میں اس کا نام زندہ رکھنے کیلئے کافی تھا۔ابراہیم زئی اسکول کا وہ طالب علم جو پانچ جنوری کو ایک عام سا لڑکا تھا ۔۔بہت جلد وہ خاص بننے والا تھا۔
                            ٭٭٭
1998کے سال میں مجاہد علی کے گھرایک بیٹے نے آنکھ کھولی۔ہنگو میں واقع اس گاؤں کے کسی گھر میں بیٹے کی پیدائش اس لئے بھی خوش قسمتی سمجھی جاتی تھی کیونکہ وہاں کے بیٹے اپنے اس گاؤں کی حفاظت خود کرتے تھے۔ان پر ہونے والے حملے اکثر رات کی تاریکی میں ہوتے۔مذہبی فرقہ واریت اور دہشتگردی کا نشانہ بننے والا یہ علاقہ محنت کش لوگوں کا تھا جو اپنی روزی روٹی کمانے پہاڑوں سے نکل کر شہروں کا رخ کرتے۔مجاہد علی ،دو بیٹیوں اور دو بیٹوں کا باپ تھا۔ان کا پیٹ پالنے کیلئے اسے اپنے علاقے سے نکلنا پڑا اور روزی کی مجبوری اسے پرائے دیس میں لے گئی۔یو اے ای میں جا کر پہاڑوں کا بیٹا اپنی اولاد کیلئے محنت کرنے لگ گیا۔
اس علاقے کی خوف کی فضا میں اس کا بیٹا اعتزاز حسن جوان ہوا۔اعتزازاس علاقے کے اکثر بچوں کی طرح وقت سے پہلے جوان ہوا اور ذمہ داری کا احساس بھی تھا اس میں۔پڑھنے کیلئے اس نے ابراہیم زئی اسکول کا رخ کیا۔۔پڑھائی نے کچھ شعور دیا تو اسے احساس ہوا۔۔بار بار ہونے والے دہشتگردوں کے حملوں کو نہ صرف بازو کے زور پر روکناچاہیے بلکہ ساتھ ساتھ علاقے کے لوگوں کے دل و دماغ سے خوف مٹانے کیلئے ان حملہ آوروں کے خلاف بولنا بھی ضروری ہے۔اس لئے اعتزاز حسن علاقے کا واحد لڑکا تھا جو سرعام ان دہشتگردوں کے خلاف بولتا۔ان کے خلاف لڑنے کی خواہش کا اظہارکرتا۔علاقے کے لوگ اس کی بات ضرور سنتے اور بہادری سے متاثر بھی ہوتے مگرحملہ آوروں کا کم نہ ہوتا۔اعتزاز کی یہ کوششیں ہمیشہ جاری رہتیں۔۔لیکن پھر۔۔ایک ایسا واقعہ پیش آیا جب اعتزاز کو مزید بولنے کی ضرورت نہ رہی۔۔اس کے ایک کارنامے نے سب کچھ بدل کررکھ دیا۔
                             ٭٭٭
سردیوں کی صبح تھی۔دھند،ہڈیوں میں سما جانے والی ٹھنڈی ہوا۔۔بہت کوششوں کے بعد آخر اس نے خود کو گرم بستر سے باہر نکلنے پر آمادہ کیا۔منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کیا اور اسکول جانے کیلئے دوستوں کے ساتھ نکل پڑا۔ان سب کے قدم تیز تھے کیونکہ آج انہیں لیٹ ہوچکی تھی۔اسکول پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ وہ اسمبلی میں داخل نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ دیر سے آئے ہیں۔
’’کیا مصیبت ہے یار‘‘ان میں سے ایک بڑبڑایا۔
’’سب اس موٹے کا قصور ہے۔۔سست کہیں کا۔‘‘دوسرے کا غصہ اپنے کزن اعتزاز پر اترا جو پرسکون انداز میں کھڑا تھوڑی دیر بعد ملنے والی سزا کا سوچ رہا تھا۔چھ جنوری کی صبح کا آغاز ان کیلئے اچھا نہ تھا۔اسی دوران بیس بائیس سال کی عمر کا لڑکا،اسکول کی وردی کے بغیر وہاں دکھائی دیا۔وہ سب اسکول گیٹ سے پیچھے موجود تھے۔اجنبی اسکول گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔کسی کے پوچھنے پر اس نے جواب دیا۔
’’میں نے داخلہ لینا ہے۔اس بارے میں معلومات لینے آیا ہوں۔‘‘یہی وقت تھا جب اعتزاز کے ساتھ کھڑے اس کے کزن کو ایک عجیب سا احساس ہوا۔
’’اعتزاز۔۔اس نے جیکٹ باندھ رکھی ہے بم والی۔‘‘اس کی آوازمیں لرزش تھی۔
’’تمہیں کیسے پتا چلا؟‘‘
’’وہ دیکھ‘‘اعتزاز نے اس سمت دیکھا جہاں وہ اشارہ کررہا تھا۔جیکٹ کا ابھار محسوس ہورہا تھا۔اگلے چند سیکنڈ میں وہاں کا منظر تیزی سے تبدیل ہوا۔اعتزاز کے آس پاس موجود سب لڑکے بھاگ کھڑے ہوئے۔وہ اسے بھاگنے کا کہہ رہے تھے مگر وہ نہ بھاگا۔اپنی باتوں کو درست ثابت کرنے کا وقت آ پہنچا تھا۔ابراہیم زئی اسکول کے گیٹ پر اس وقت پندرہ سال کا لڑکا نہیں،بلکہ تاریخ کا سب سے بہادر شخص کھڑا تھا۔اس نے آس پاس دیکھا اور ایک پتھر اٹھا کر خودکش حملہ آور کو مارا۔۔نشانہ درست نہ لگ سکا۔اعتزاز کے پاس کوئی اور راستہ نہ تھا۔وہ بھاگتا ہوا آگے بڑھا اورحملہ آور کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا۔حملہ آور نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔وہ اسکول گیٹ کی طرف بڑھنا چاہتا تھالیکن اس لڑکے کی طاقت کے آگے بے بس ہوچکا تھا۔اس کشمکش میں جیکٹ پھٹ گئی۔دھماکے سے علاقہ گونج اٹھا۔۔حملہ آور جو کئی لوگوں کو مارنے کا خواب آنکھوں میں سجائے آیا تھا۔۔اس کے جسم کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔وہاں بس ایک ہی لڑکا تھا جو شہید ہوا اور وہ اعتزاز تھا۔اسکول کے سینکڑوں بچے محفوظ تھے۔
’’بم جتنا مرضی چھوٹا بڑا کیوں نہ ہو۔۔آدمی سے زیادہ طاقتور نہیں ہوتا۔‘‘
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دئیے تم نے
بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوں کو
سہاگ کتنی بہاروں کے رکھ لئے تم نے
تمہیں چمن کی فضائیں سلام کہتی ہے
                                     ٭٭٭
اوریہ پرنسپل کا کمرا ہے۔وہی منظر ہے ۔۔وہی قائداعظم کی تصویر،وہی کلاس ٹیسٹ اور فائلوں کا ڈھیر۔مگر نہیں۔۔ایک تبدیلی آچکی ہے۔قائد اعظم کی تصویر کے ساتھ ایک اور تصویر لگی ہوئی ہے۔نئے فریم میں لگی اس تصویر میں ایک پندرہ سال کا لڑکا موجود ہے۔پہاڑی نقوش،پرسکون چہرہ ۔۔اعتزاز حسن شہید۔
اس کا باپ میڈیا کے سامنے آنکھوں میں نمی لئے کھڑا تھا اور اس کے الفاظ پر پاکستان کی دھرتی نے فخر کیا تھا۔
’’میرے بیٹے نے اپنی ماں کو ضرور رلایا ہے مگر اس نے سینکڑوں ماؤں کو رونے سے بچا لیا ہے۔‘‘
ٔ٭ہیرالڈ میگزین میں 2014کی بہترین پاکستانی شخصیت کے ایوارڈ کا اعلان کیا گیا۔یہ مقابلہ ووٹنگ کے ذریعے ہوا تھا اور اس میں وہ شخصیات نامزد تھیں جو پورا سال خبروں میں رہی اور عوام کی پسندیدہ رہی۔اس میں تب پی ٹی آئی کے چیئرمین اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کا  نام بھی شامل تھا۔۔مگر وہ صرف چند ووٹ سے ہار گئے اور بہترین شخصیت کا یہ ایوارڈ اعتزاز حسن شہید کے نام رہا۔۔
ٔ٭تیئس مارچ کو اعتزاز حسن کو’ستارہ شجاعت‘سے نوازاگیا جبکہ انٹرنیشنل ہیومین رائٹس کمیشن نے اسے ’گلوبل بریوری‘ایوارڈ سے نوازا۔
اور آج ابراہیم زئی ہائی اسکول کے گیٹ پر ہائی اسکول کا نام تبدیل کرکے لکھا ہوا ہے۔۔اعتزاز حسن شہید ہائی اسکول۔۔۔
                                                                                                          ٭٭٭
اعتزاز سلیم وصلی